بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج فرض ہے لیکن شوگر کی وجہ سے سفر ممکن نہیں تو کیا حکم ہے؟


سوال

ایک خاتون ہے جوکہ صاحب استطاعت ہے، اس پر حج فرض ہے، خود چل پھر سکتی ہے، عمر اٹھاون سال ہے، البتہ کچھ اعذار ہیں جس کی وجہ سے فرض حج کی ادائیگی میں پریشانی ہے، عذر یہ ہے کہ شوگر کی مریضہ ہے جس کی وجہ سے پیشاب پر کنٹرول نہیں رکھ سکتی اور سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی، بس وغیرہ میں بیٹھنے کے لیے ٹانگیں اوپر نہیں اٹھاسکتی اور سانس کا بھی مسئلہ ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ ان اعذار کی وجہ سے فرض حج کو چھوڑا جاسکتا ہے؟ یا یہ عورت حج بدل کرواسکتی ہے؟

جواب

جس شخص پر استطاعت کی وجہ سے حج فرض ہوگیا ہو اور اس نے حج کا زمانہ پایا مگر کسی وجہ سے حج نہ کر سکا، پھر کوئی ایسا عذر پیش آگیا جس کی وجہ سے خود حج کرنے پر قدرت نہیں رہی مثلاً ایسا بیمار ہوگیا جس سے شفا کی امید نہیں یا نابینا ہوگیا یا اپاہج ہو گیا یا فالج ہوگیا یا بڑھاپے کی وجہ سے ایسا کمزور ہوگیا کہ خود سفر کرنے پر قدرت نہیں رہی، تو اس آدمی کے لیے اپنی طرف سے کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر حج بدل کروانا یا اپنے مرنے کے بعد اپنے ترکے سے اپنی طرف سے حج بدل کروانے کی وصیت کرنا فرض ہے، وصیت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’میرے مرنے کے بعد میری طرف سے میرے مال سے حج بدل کرادیا جائے‘‘۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ خاتون  سوال میں ذکر کیے گئے اعذار  کی وجہ سےاب  خود حج کرنے پر قدرت نہیں رکھتی تو اپنی جانب سے حج بدل کروادے  یا حج بدل کی وصیت کردے،  جس کی تفصیل اوپر ذکر کی گئی ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن والأذكار وزيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كذا في غاية السروجي شرح الهداية. (العبادات ثلاثة أنواع): مالية محضة كالزكاة وصدقة الفطر، وبدنية محضة كالصلاة والصوم، ومركبة منهما كالحج. والإنابة تجري في النوع الأول في حالتي الاختيار والاضطرار، ولا تجري في النوع الثاني وتجري في النوع الثالث عند العجز، كذا في الكافي. ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزاً عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادراً على الأداء بنفسه بأن كان صحيح البدن وله مال أو كان فقيراً صحيح البدن لا يجوز حج غيره عنه.

(ومنها) استدامة العجز من وقت الإحجاج إلى وقت الموت، هكذا في البدائع. حتى لو أحج عن نفسه وهو مريض يكون مراعى فإن مات أجزأه، وإن تعافى بطل وكذا لو أحج عن نفسه وهو محبوس، كذا في التبيين. فإن أحج الرجل الصحيح عن نفسه رجلاً ثم عجز لم تجزئه الحجة، كذا في السراج الوهاج. وإنما شرط عجز المنوب للحج الفرض لا للنفل، كذا في الكنز. ففي الحج النفل تجوز النيابة حالة القدرة؛ لأن باب النفل أوسع، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب المناسك، الباب الرابع عشر فی الحج عن الغیر، 1/ 257، ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309101447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں