میرا اس سال اپنے مرحوم بھائی کا حج بدل کرنے کا ارادہ ہے۔ کیا حج تمتع کر سکتا ہوں؟
صورت مسئولہ میں اگر مرحوم نے حج بدل کی وصیت نہیں کی اور آپ اپنی طرف سے اپنے مرحوم بھائی کے لیے حج کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو حجِ تمتع، حجِ قران اور حجِ افراد، تینوں کا ہی اختیار ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ حجِ افراد کرلیں۔نیز صورت میں چوں کہ یہ شرعاً حجِ بدل نہیں اس لیے آپ کسی بھی قسم کی حج کی نیت (مطلق حج کی نیت ،یا بھائی کے لیے حج کی نیت )کے ساتھ حج کرسکتے ہیں اور اس کا بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ حج مکمل کرنے کے بعد اس کا ثواب مرحوم بھائی کو بخش دیا جائے۔
اور اگر سوال سے مقصود اس کے علاوہ ہو(مثلاً مرحوم کے ترکہ سے ان کے لیے حج کرنا ہو، یا انہوں نے ان کی وصیت ہو حج کی ، یا وہ حج فرض ہوجانے کے بعد حج نہ کرسکے ہوں وغیرہ) تو وضاحت کے ساتھ لکھ کر دوبارہ جواب دریافت کرلیں۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
"من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف، وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى –".
(ج:1،ص:258،ط:رشیدیہ)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"اگر بغیر وصیت کوئی وارث اپنے حصے سے حج ادا کرادے، یا اپنی طرف سے اپنے مال سے ادا کرادے تو امید ہے کہ وہ میت مواخذہ سے بری ہوجائے".
(ج:10،ص:421،ط:جامعہ فاروقیہ)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
" اگر آپ کے مرحوم والدین کے ذمہ حج فرض نہ تھا یا حج تو فرض تھا مگر وصیت نہیں کی، اور آپ اپنی طرف سے حج بدل کرنا چاہتے ہیں تو آپ حسب مرضی حج افراد یا قران یا تمتع میں سے جونسا احرام باندھیں اختیار ہے، مگر حج افراد کا احرام باندھ کر حج کرنا اولی ہے" ۔
(ج:8،ص:129،ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101730
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن