بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا آفاقی حج افراد نہیں کرسکتا؟/ حج افراد کا طریقہ /میت کی طرف سے حج بدل کیا جاسکتا ہے؟


سوال

 1. میں پاکستان سے حج افراد کرنا چاہتا ہوں،  میری فلائیٹ اگر آٹھ ذی الحج سے آٹھ دس یا بارہ دن پہلے ہے تو کیا میں حج افراد کر سکتا ہوں؟  میں نے سنا ہے کہ حج افراد مقیم کے لیے ہے جو حدود حرم میں ہیں تو میں تو مقیم نہیں ہوں تو میں حج افراد کر سکتا ہوں یا نہیں یا مجھے مقیم ہونے کے لیے پندرہ بیس دن پہلے جانا ہو گا، حج افراد کا صحیح طریقہ بتا دیں!

2. میرے والد صاحب پر حج فرض نہیں تھا اور انہوں نے حج کی وصیت بھی نہیں کی تھی تو یہی حج افراد ان کے لیے میں حج بدل کے طور پر کر سکتا ہوں اگر کر سکتا ہوں تو کیانیت ان کی طرف سے کروں گا؟

جواب

1.جو شخص میقات کی حدود سے باہر رہائش پذیر ہو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ حج قران کرے یا قران نہ کرسکتا ہو تو حج تمتع کرے،کیونکہ سب سے افضل حج قران ہے، پھر حج تمتع پھر حج افراد ہے، لیکن مکہ، حدود حرم اور حدود میقات کے اندر رہنے والے حج قران یا حج تمتع نہیں کرسکتے، اس لئے یہ لوگ صرف حج افراد کریں، ان کے لیے حج افراد متعین ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ حدودِ میقات سے باہر رہتے ہیں وہ حج افراد نہیں کرسکتے،نیز اگرآپ اپنے پیسوں سے والد مرحوم کے لیے حج بدل کرنا چاہتے ہیں تو حج بدل کرسکتے ہیں اور گھر سے حج افراد کی نیت سے احرام باندھ سکتے ہیں، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں اور حج بدل کرتے وقت والد صاحب کی طرف سے نیت کرنا ضروری ہے، مثلاً میں اپنے والد مرحوم فلاں بن فلاں کی طرف سے حج بدل کررہا ہوں۔

حج افراد کا طریقہ: 

حج افراد کرنے والا احرام باندھتے ہوئے صرف حج کی نیت کرے گا،اگر وہ افراد کرنے والا حاجی حدودِ حرم سے باہر سے آیا ہے تو وہ سب سے پہلے طواف قدوم کرے گا، اور اگر حدود حرم میں ہی پہلے سے رہائش پذیر ہے تو اس پر طواف قدوم نہیں ہے۔ آٹھ ذو الحجہ کی فجر کی نماز کے بعد منی جائے گا، وہاں نو ذو الحجہ کی صبح تک رہے گا،نو ذو الحجہ کی فجر کی نماز کے بعد عرفات جائے گا اور غروبِ آفتاب تک وہاں ٹھہرے گا،غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوگا، رات مزدلفہ میں قیام کرے گا اور فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنے کے بعد منیٰ کے لیے روانہ ہوگا،منیٰ پہنچ کر بڑے شیطان کو کنکریاں مارے گا، اور اس کے بعد حلق کرا کر احرام سے نکل جائے گا، تاہم طوافِ زیارت سے پہلے بیوی اس پر حلال نہیں ہوگی۔اس کے بعد طوافِ زیارت کرنا چاہے تو اسی دن کر لے، ورنہ بارہ ذو الحجہ کی مغرب سے پہلے پہلے تک کسی بھی وقت کر سکتا ہے۔اور اس طواف کے ساتھ  صفا اور مروہ کی سعی بھی کر لے۔ اس کے بعد واپس منیٰ آجائے یا اپنی رہائش پر جانا چاہے تو جا سکتا ہے، تاہم رات منیٰ میں گزارے کہ یہ مسنون ہے۔

اگلے دن گیارہ ذو الحجہ اور اس سے اگلے دن بارہ ذو الحجہ کو زوال کے بعد  تینوں شیطانوں کی رمی کرے۔ زوال سے پہلے رمی کرنا درست نہیں ہے۔ گیارہ ذوالحجہ کی رات بھی منیٰ میں گزارنا مسنون ہے۔بارہ ذو الحجہ کی رمی سے فارغ ہونے کے بعد  اگر وہ حدود حرم سے باہر کا رہائش پذیر ہے تو اس کو اپنے وطن واپسی سے پہلے طواف وداع کرنا واجب ہے،اور اگر حدود حرم کا ہی رہائشی ہے تو بارہ ذو الحجہ کی رمی کے بعد اس کا حج مکمل ہو جائے گا۔

2.اگر آپ اپنا فرض حج ادا کرچکے ہیں تو اس صورت میں اپنے مرحوم والد کی طرف سے حج بدل کرسکتے ہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"القران في ‌حق ‌الآفاقي أفضل من التمتع والإفراد والتمتع في حقه أفضل من الإفراد وهذا هو المذكور في ظاهر الرواية هكذا في المحيط.  وليس لأهل مكة تمتع ولا قران، وإنما لهم الإفراد خاصة كذا في الهداية وكذلك أهل المواقيت ومن دونها إلى مكة في حكم أهل مكة كذا في السراج الوهاج."

(كتاب المناسك، الباب السابع في القران و التمتع، 1/ 239، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ذكر العلامة نوح عن مناسك القاضي حج الإنسان عن غيره أفضل من حجه عن نفسه بعد أن أدى فرض الحج لأن ‌نفعه ‌متعد، وهو أفضل من القاصر اهـ تأمل."

(كتاب الحج، باب الحج عن الغير، 2/ 603، ط: سعيد)

غنیۃ الناسک میں ہے:

" تتمة: وهذه الشرائط كلها في الحج الفرض، وأما في الحج النفل فلايشرط شيئ منها إلا الإسلام والعقل و التمييز والنية ولو بعد الأداء.(لباب)."

(باب الحج عن الغير، ص:336، ط: إدارة القرآن كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں