بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج بدل نہ کرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی  شخص اپنے ماں باپ کے حصے کا حج بدل نہىں  کرتا تو کىا وہ شخص گناہ گار ہو گا؟ 

جواب

حج ایسے شخص پر فرض ہوتا ہے جس کے پاس ضروریات اور قرض کے علاوہ اتنی رقم یا مال موجود ہو جس سے حج پر جانے اور آنے کے اخراجات پورے ہو سکتے ہوں اور  واپس آنے تک اہل و عیال کا خرچہ بھی موجود ہو۔

اگر کسی شخص کے اوپر مذکورہ شرائط کے پائے جانے کی صورت میں حج فرض تھا اور اس نے حج نہیں کیا اور نہ ہی وصیت کی تو وہ گناہ گار ہو گا اور ایسی صورت میں اولاد حج بدل نہ کرنے کی صورت میں گناہ گار بھی نہ ہو گی، لیکن اگر اولاد وصیت کے بغیر اپنے مال سے اپنے والدین کی طرف سے حج بدل کر لے تو بڑا ثواب کا کام ہے۔

اور اگر حج فرض ہونے کی صورت میں خود تو نہ کر سکا لیکن وصیت کی ہو تو ایسی صورت میں اگر مرحوم کے ترکہ کے ثلثِ مال میں اتنی گنجائش ہو تو اولاد پر میت کے مال سے میت کی طرف سے حج بدل کرنا ضروری ہو گا، ورنہ گناہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

(وان لم یوص به) أي بالإحجاج (فتبرع عنه الوارث) وكذا من ھم أھل التبرع (فحج) أي الوارث ونحوہ (بنفسه) أي  عنه (أوحج عنه غیرہ جاز)(۵۹۹/۲)

الفتاوى الهندية میں ہے:

"من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف . (۱/۲۵۸، رشیدیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر بغیر وصیت کوئی وارث اپنے حصے سے حج ادا کرادے، یا اپنی طرف سے اپنے مال سے ادا کرادے تو امید ہے کہ وہ میت مواخذہ سے بری ہوجائے". 

(۱۰/۴۲۱، دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200901

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں