بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج بدل کا حکم


سوال

میرا سوال حج بدل کے متعلق ہے،ہماری پھوپھو کی شدید خواہش تھی کہ وہ حج کریں،لیکن زندگی میں وہ حج نہیں کرسکیں اور انتقال کرگئیں اور میری بڑی بہن ہیں ،ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ ان کے بدلے کا حج کریں،کیا ایسی کوئی صورت ہے کہ پھوپھو کے نام کا حج یا ان کی طرف سے حج کیا جاسکے اور میری بہن وہ حج کرلیں؟اس کے علاوہ یہ ہے کہ میری ان ہی بہن نے پہلے حج کیا ہوا ہے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ کیوں کہ بہن پہلے حج کرچکی ہیں اور اب وہ پھوپھو کے نام کا حج یا پھوپھو کی طرف سے حج کر سکتی ہیں،اس مسئلے میں راہ نمائی فرمائیں اور یہ بھی بتادیں کہ اگر پھوپھو کے نام کا حج ہوگا تو کیا وہ فرض ادا ہوگا؟یا اس حج کا ثواب پھوپھو کو مل جائے گا؟یہ بات بھی بتادوں کہ پھوپھو کی خواہش بھی تھی اور ان کے پاس وسائل بھی موجود نہیں تھے کہ وہ حج کرپاتیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی پھوپھی پر حج فرض نہیں تھا،تو ان کی طرف سے حج بدل کرانا ضروری نہیں ہے،تاہم اگر کوئی شخص اس کی طرف سے حج کرے گا تو سائل کی پھوپھی کو ثواب ملے گا اور یہ حج وہ شخص کرے جو پہلے اپنا حج کرچکا ہو،لہٰذا اگر سائل کی بہن پہلے اپنا حج کرچکی ہے تو وہ حج بدل کرسکتی ہے۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"بخلاف ما لو أهل بحج عن أبويه أو غيرهما من الأجانب حال كونه (متبرعاً فعين بعد ذلك جاز)؛ لأنه متبرع بالثواب فله جعله لأحدهما أو لهما، وفي الحديث: "من حج عن أبويه فقد قضى عنه حجته، وكان له فضل عشر حجج، وبعث من الأبرار".

(كتاب الحج،باب الحج عن الغير،ج:2،ص:610،609،608،ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وهذه الشرائط كلها في الحج الفرض، وأما النفل فلا يشترط فيه شيء منها: إلا الإسلام والعقل والتمييز، وكذا الاستئجار."

(‌‌كتاب الحج،مطلب شروط الحج عن الغير،ج:2،ص:601،ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والأفضل للإنسان إذا أراد أن يحج رجلا عن نفسه أن يحج رجلا قد حج عن نفسه، ومع هذا لو أحج رجلا لم يحج عن نفسه حجة الإسلام يجوزعندنا، وسقط الحج عن الآمر، كذا في المحيط".

(كتاب المناسك،الباب الرابع عشر في الحج عن الغير،ج:1،ص:257،ط:رشيديه)

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل فيه أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة قرآن أو ذكرا أو طوافا ‌أو ‌حجا أو عمرة أو غير ذلك....والظاهر أنه لا فرق بين أن ينوي به عند الفعل للغير أو يفعله لنفسه ثم بعد ذلك يجعل ثوابه لغيره لإطلاق كلامه".

(كتاب الحج،باب الحج عن الغير،ج:3،ص:64،63،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405101673

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں