بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج بدل میں تمتع کرنے کاحکم


سوال

حج بدل   میں تمتع کر سکتے ہیں  ؟؟

جواب

صورت مسئولہ میں جہاں تک ممکن ہو   حج بدل میں افراد یا قران کیا جائے  ، تمتع نہ کرے ،لیکن اس زمانے میں حج و عمرہ کر نے میں  عام آدمی آزاد نہیں کہ  جب اور جس وقت چاہے جاسکے اور طول احرام سے بچنے کے لیے  ایام حج کے بالکل قریب سفر کریں ، ہر طرف حکومتوں کی پابندیاں شدید ہیں  اس لیے کسی حج بدل کر نے   والے کو وقت سے زیادہ پہلے  جانے کی مجبوری ہو اور احرام طویل میں واجبات احرام کی پابندی مشکل نظر آئے  تو اس کے لیے تمتع کر لینے کی بھی  گنجائش ہے ۔   

غنیۃ الناسک میں ہے :

"وينبغي  للأمر أن يفوض الأمر الي المأ مور، فيقول :حج عني كيف شئت مفردا أو قارنا زاد في اللباب أو متمتعا ۔۔۔ ففي الخانية قال الشيخ الامام أبو بكر محمد بن الفضل : اذا أ مر غيره أن يحج عنه أن يفوض الأمر الي المأ مورفيقول: حج  عني بهذا المال كيف شئت ان شئت ، وان شئت حجة وعمرة وان شئت قارنا والباقي من المال منی لك وصية كي لايضيق الأمر علی الحاج، ولا يجب عليه رد مافضل الي الورثة ".

(باب الحج عن الغیر،فصل فی النفقۃ، ص:343،ادارۃ القرآن)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"سوال:حج بدل حج کی کون سی قسم ہے  ،یعنی قران یا افراد؟

جواب :  جس پر حج فرض تھا  اگر اس نے وصیت کی ہے تو حج افراد کر نا چاہیے ۔"

(حج بدل کا بیان ، 426/22، ادارۃ الفاروق کراچی)

جواہر الفقۃ میں ہے :

"اگر چہ من حیث الدلیل  رجحان اس کامعلوم ہو تا ہے  کہ حج بدل  میں  آمر کی اجازت سے قران اور تمتع  دونوں جائز ہوں ، اور فقہاء متاخرین میں صاحب لباب اور اس کے حاشیہ "حباب" وغیرہ میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے ،مگر ملاعلی قاری اور حضرت گنگوہی  قدس اللہ  سر ہ کافتوی اس سے مختلف ہے  ، وہ تمتع کو باذن آمر بھی جائز قرار نہیں دیتے،معاملہ ادائے فرض   کا نازک  کاہے  اس لیے احتیاط لازم ہے ، جہاں تک ممکن ہو حج بدل میں افراد یاقران کیا جائے ، تمتع  نہ کریں  لیکن اس زمانے میں حج وعمرہ کر نے میں عام آدمی آزاد نہیں  کہ جب اور جس وقت چاہیں جاسکیں  ، اور طول احرام سے بچنے  کے لیے ایام حج کے بالکل قریب سفر کریں ، ہر طرف حکومتوں کی پابندیاں شدید ہیں  اس لیے اگر کسی حج بدل کرنے والے کو وقت سے زیادہ   پہلے جانے کی مجبوری ہو اور احترام طویل میں واجبات احرام  کی پابندی مشکل نظر آئے ،تو اس کے لیے  تمتع کر لینے کی بھی گنجائش  ہے "۔

(حج بدل اور  اس کے احکام ،225/1،مکتبہ دار العلوم کرچی )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410101161

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں