بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حاجیوں کی خدمت کے لیے سرکاری طور پر سعودیہ جاکر حج کرنے کا حکم


سوال

1۔ ایک آدمی پاکستانی حاجیوں کی خدمت کے لیے سرکاری طور پر سعودیہ گیا ،منیٰ میں اس کی ڈیوٹی ہے وہاں اتنی سختی نہیں،  اب وہ حج کرنا چاہتا ہے تو اس کےلیے کیا حکم ہے؟

2۔نیز احرام کہاں سے باندھے ؟منیٰ میں ہی باندھ لے یا میقات سے باندھے؟ اگر میقات سے  باندھے گاتو میقات کون سا ہے اور حج کیسے کرے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں  اگر مذکورہ شخص حاجیوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ احرام باندھ کر حج کے تمام ارکان پوری طرح ادا کرسکتاہے تو اس کا حج کرنا شرعا جائز ہے اور اس کا حج ادا ہوجائے گا، لیکن اگر پاکستانی یا سعودی حکومت کی جانب سے انہیں حج کرنے کی اجازت  نہیں ہے اور پکڑے جانے کی صورت میں قید وبند کی صعوبتیں یامالی جرمانے کا اندیشہ ہے تو حج نہ کرنا بہتر ہے۔

2۔اگر مذکورہ شخص پاکستان سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کر چکا ہےتو اس کا حکم مکہ والوں کا ہے،   حج کااحرام   حرم کی  حدود کے اندر سے باندھنا ہے، لہذا یہ شخص مکہ مکرمہ/مسجد حرام/ ہوٹل سے بھی حج کا احرام باندھ سکتاہے، منی بھی حدود حرم میں شامل هے،لہذا منی سے بھی احرام باندھ سکتاہے اور اگر اس شخص نے پاکستان سے  عمرہ نہیں کیا اور اب  حج کا ارادہ کرتاہے، تو اس کےلیے میقات سے پہلے پہلے احرام کی نیت کرکے تلبیہ پڑھنا ضروری ہے، اگر ایساشخص میقات سے پہلے پہلے احرام کی نیت نہیں کرتا اور  تلبیہ نہیں پڑھتا اور نیت کے  بغیرمیقات سے گزرجاتاہے تو اس پر دم لازم ہوگا، لیکن اگر وہ میقات واپس آکر احرام باندھے گا تو دم ساقط ہوجائے گا، تاہم اگر یہ شخص میقات سے پہلے تلبیہ پڑھ کر نیت کرلے اور احرام کی چادریں میقات کے اندر باندھے اور  سلے ہوئے کپڑےبارہ گھنٹے سے کم تک پہنے رکھے تو اس پر صدقہ واجب ہوگا، دم واجب نہیں ہوگا اور اگر میقات سے احرام باندھ کر نہیں آیا، منی میں آکر حج کا احرام باندھ کر حج کے ارکان کو ادا کرلیا، تو بھی حج ہوجائےگا، البتہ دم دینا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"في اللباب: الفقير الآفاقي إذا وصل إلى ميقات ‌فهو ‌كالمكي... وينبغي أن يكون الغني الآفاقي كذلك إذا عدم الركوب بعد وصوله إلى أحد المواقيت فالتقييد بالفقير لظهور عجزه عن المركب، وليفيد أنه يتعين عليه أن لا ينوي نفلا على زعم أنه لا يجب عليه لفقره."

 

[كتاب الحج، ج:2، ص:460، سعيد.]

"بدائع الصنائع" ميں ہے:

"أما الصنف الأول فميقاتهم ما وقت لهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يجوز لأحد منهم أن يجاوز ميقاته إذا أراد الحج أو العمرة إلا محرما؛ لأنه لما وقت لهم ذلك فلا بد وأن يكون الوقت مقيدا، وذلك إما المنع من تقديم الإحرام عليه، وإما المنع من تأخيره عنه، والأول ليس بمراد لإجماعنا على جواز تقديم الإحرام عليه فتعين الثاني، وهو المنع من تأخير الإحرام عنه."

[كتاب الحج، ج:2،ص:164،ط:دار الكتب العلمية.]

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ولداخلها الحل) أي الميقات لأهل داخل المواقيت الحل الذي هو من دويرة أهله إلى الحرم؛ لأن خارج الحرم كله كمكان واحد في حقه والحرم في حقه كالميقات في حق الآفاقي فلا يدخل الحرم إذا أراد الحج أو العمرة إلا محرما قال - رحمه الله - (وللمكي الحرم للحج والحل للعمرة) أي الوقت لأهل مكة الحرم في الحج والحل في العمرة للإجماع على ذلك وكان - عليه الصلاة والسلام - يأمر بذلك؛ ولأن أداء الحج في عرفة، وهي في الحل فيكون الإحرام من الحرم ليتحقق نوع سفر وأداء العمرة في الحرم فيكون الإحرام من الحل ليتحقق نوع سفر بتبديل المكان والتنعيم أفضل لأمره - عليه الصلاة والسلام - بالإحرام منه والله سبحانه وتعالى أعلم."

[كتاب الحج، ج:2، ص:8، ط: دار الكتاب الإسلامي]

وفيه أيضا:

"قال - رحمه الله - (أو لبس مخيطا أو غطى رأسه يوما) يعني يجب الدم في كل واحد منهما إذا كان يوما كاملا...قال - رحمه الله - (وإلا تصدق) أي وإن كان اللبس والتغطية أقل من يوم تصدق لقصور الجناية."

[كتاب الحج، ج:2، ص:54، ط:دار الكتاب الإسلامي]

"غنية الناسك"ميں ہے:

""ومن دخل مكة أو الحرم بلا إحرام، فعليه أحد النسكين ... وعليه دم المجاوزة، فإن عاد إلى الميقات ولبى عنده، سقط عنه دم المجاوزة أيضا."

[باب مجاوزة الميقات بغير إحرام، ص:60، ط:إدارة القرآن]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں