اگر کوئی حج کی سعادت کے لئے جا رہا ہے تو اس کو کیا پاکستان میں بھی قربانی کرنی ہو گی ؟
صورتِ مسئولہ میں پاکستان سے حج کے لیے جانے والا آدمی اگر ’’منی‘‘ جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلسل پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی اقامت کی نیت سے رہےگا تو اہل مکہ میں سے ہوجانے کی وجہ سےاس پر عید والی قربانی لازم ہے،اور یہ قربانی خواہ سعودیہ میں کرے یا پاکستان میں،البتہ پاکستان میں قربانی کرتے وقت یہ رعایت رکھنا ضروری ہوگاکہ دونوں جگہ قربانی کے ایام ہوں،اور اگر اس نے حج تمتع یا قِران کا ارادہ کیا ہو،تو دمِ شکر بھی لازم ہوگا،اور یہ دمِ شکر حدودِ حرم میں ادا کرنا ضروری ہے،تاہم اگر وہ منی جانے سے پہلے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ایام کی اقامت کی نیت سے نہیں ٹھہرا ہو،تو اس پر عید والی قربانی لازم نہیں ہے ۔
"ألمبسوط للسرخسي"میں ہے:
"والأضحية تجب على أهل السواد كما تجب على أهل الأمصار؛ لأنهم مقيمون مياسير، وإنما لم تجب على المسافرين لما يلحقهم من المشقة في تحصيلها، وذلك غير موجود في حق أهل القرى، وفي الأصل ذكر عن إبراهيم قال هي واجبة على أهل الأمصار ما خلا الحاج وأراد بأهل الأمصار المقيمين وبالحاج المسافرين. فأما أهل مكة فعليهم الأضحية، وإن حجوا."
(ص:١٨،ج:١٢،كتاب الذبائح،باب الأضحية،ط:دار المعرفة)
"الفتاوي الهندية"میں ہے:
"وروي عنهما أيضا أن الرجل إذا كان في مصر وأهله في مصر آخر فكتب إليهم ليضحوا عنه، فإنه يعتبر مكان التضحية فينبغي أن يضحوا عنه بعد فراغ الإمام من صلاته في المصر الذي يضحى عنه فيه، وعن أبي الحسن أنه لا يجوز حتى يصلي في المصرين جميعا، كذا في الظهيرية."
(ص:٢٩٦،ج:٥،کتاب الأضحية،الباب الرابع فيما يتعلق بالمكان والزمان،ط:دار الفكر،بيروت)
"بدائع الصنائع"میں ہے:
"وذكر في الأصل وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا؛ لما روى نافع عن ابن سيدنا عمر رضي الله عنهما أنه كان يخلف لمن لم يحج من أهله أثمان الضحايا ليضحوا عنه تطوعا ويحتمل أنه ليضحوا عن أنفسهم لا عنه فلا يثبت الوجوب مع الاحتمال."
(ص:٦٣،ج:٥،کتاب التضحية ،فصل في شرائط وجوب في الأضحية،ط:دار الکتب العلمیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411101997
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن