بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاجتِ اصلیہ سے زائد رقم اور کمیٹی کے رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

ہم تین بھائی ساتھ رہتے ہیں ۔والد اور والدہ کا انتقال ہو چکا ہے ۔میں شادی شدہ ہوں ،بھائیوں کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی ۔ہم نے کچھ عرصہ پہلے ایک مکان بیچا تھا ۔اس مکان کا قبضہ ابھی تک ہمارے پاس ہے ۔ ہم نے مکان واپس لینے  کے لئے مل کر کچھ رقم جمع کی ہے ۔کیا اس پر زکوۃہوگی ؟باقی سونا وغیرہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔اس رقم میں سے کچھ رقم کو سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور ایک کمیٹی بھی نکلے گی رمضان میں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مکان واپس لینے کے لیےجمع شدہ رقم،اور کمیٹی کی رقم  کو تینوں بھائیوں پر تقسیم کر کےہر ایک کاحصہ اگر ساڑے باون تولہ چاندی کے برابر ہو،اور  اس   پر سال  بھی گزر چکا ہو  یا دیگر قابل زکاۃ مال بھی موجود ہو تو ان سب پر جمع شدہ رقم اور کمیٹی کے رقم پر ڈھائی فیصد زکوۃ واجب ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه۔۔۔(قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:262، ط: سعيد)

ایضاً:

"فإذا كان معه دراهم أمسكها بنية صرفها إلى حاجته الأصلية لا تجب الزكاة فيها إذا حال الحول، وهي عنده، لكن اعترضه في البحر بقوله: ويخالفه ما في المعراج في فصل زكاة العروض أن الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه للنماء أو للنفقة، وكذا في البدائع في بحث النماء التقديري. اهـ.
قلت: وأقره في النهر والشرنبلالية وشرح المقدسي، وسيصرح به الشارح أيضا، ونحوه قوله في السراج سواء أمسكه للتجارة أو غيرها، وكذا قوله في التتارخانية نوى التجارة أولا، لكن حيث كان ما قاله ابن ملك موافقا لظاهر عبارات المتون كما علمت، وقال ح إنه الحق فالأولى التوفيق بحمل ما في البدائع وغيرها، على ما إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:262، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"فقد صرح بأن من معه دراهم وأمسكها بنية صرفها إلى حاجته الأصلية لا تجب الزكاة إذا حال الحول وهي عنده ويخالفه ما في معراج الدراية في فصل زكاة العروض أن الزكاة تجب في النقد كيفما أمسكه ‌للنماء ‌أو ‌للنفقة."

(كتاب الزكاة، ج:2 ص:222، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں