بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حجام کو اجتماعی قربانی میں شریک کرنا


سوال

حجام والوں کے ساتھ قربانی جائز ہے  کہ  نہیں؟

جواب

حجام/نائی کی  اجرت کے حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں، یعنی داڑھی مونڈنا ایک مشت سے کم کرنا یا بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے، اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو  شرعی طریقے پر درست کرنا، ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے، البتہ جیسے  خلافِ شرع بال (مثلاً: سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے اور کچھ کے بڑے) رکھنا ممنوع ہے اسی طرح خلافِ شرع بال کاٹنے کی اجرت بھی حلال طیب نہیں۔

اب اگر حجام اپنی حلال آمدنی سے اجتماعی قربانی میں شریک ہوتا ہے،یا اس کی آمدنی مخلوط ہے لیکن حلال آمدنی غالب ہے تو  اس صورت میں اس کو اجتماعی قربانی میں شریک کرنا جائز ہے۔ اور  اگر اس کی آمدنی خالص حرام ہے، یا یہ یقینی معلوم ہے کہ وہ حرام آمدنی سےاجتماعی قربانی میں شریک ہورہا ہے یا اس کی آمدنی میں غالب حرام کا مال ہے تو اس  کے ساتھ مل کر اجتماعی قربانی جائز نہیں ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع". 

(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں