بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج وعمرہ سے متعلق کچھ احکام


سوال

1۔عمرے میں احرام کی حالت میں سلی ہوئی چیز پہننا ممنوع ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کی چپل پر سلائی ہوئی تھی، جس کا علم اسکو دورانِ عمرہ ہوا، تو عمرے کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح اسکی گھڑی کے پٹے پر بھی سلائی ہوئی تھی، تو اس کے پہننے اور عمرہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

2 ۔حدیث شریف میں جو ذکر آیا ہے کہ جو روضہ رسول ﷺ کے سامنے سلام عرض کرے گا، تو آپ ﷺ خود سنیں گے، تو کیا یہ حکم صرف روضہ کے سامنے کا ہے یا پوری مسجد نبوی میں ہر جگہ کا یہی حکم ہے؟ نیز اگر پورے مدینہ میں کہیں سے بھی درود وسلام کہیں گے تو کیا آپ ﷺ اسکو خود سنیں گے؟ اگر نہیں تو پھر روضہ رسول کے علاوہ دوسری جگہوں پر کن الفاظ سے درود و سلام پڑھیں؟

3۔ دوران نماز سلام پھیرتے وقت دائیں بائیں کے لوگوں اور فرشتوں اور امام کی نیت کی جاتی ہے، تو کیا اگر ہمارے دائیں بائیں روضہ رسول ﷺ ہو، تو کیا ہم آپ ﷺ کی نیت بھی کرسکتے ہیں یا نہیں؟

4۔ایسی عورتیں جو مکمل باپردہ ہوں، یا صرف ہاتھ اور آنکھیں کھلی ہوئی ہوں، تو ایسی پردے والی عورتوں کو بغیر شہوت اور بغیر گندی نظر کے دیکھنے کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر کسی باپردہ عورت سے بات کرنی پڑ جائے تو اسکی آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے بات کرنا کیسا ہے؟ چہرے پر مکمل نقاب بھی ہے بس آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، اگر کوئی بغیر شہوت کی نیت سے انکی طرف دیکھے تو کیا حکم ہے؟

5۔ حرمِ مکہ میں فی الوقت جو تعداد اور ماحول اور طواف و سعی وغیرہ کے اعمال ہیں، اس دوران حرمِ مکہ میں نمازی کے آگے سے گزرنے کا کیا حکم ہے، اس جگہ پر انسان جتنی بھی کوشش کرلے وہ نمازی کے آگے سے گزر ہی جاتا ہے، نیز گزرنا بھی پڑتا ہے، وہاں کچھ لوگ راستوں میں بھی نماز ادا کرتے ہیں، اگر صحیح جگہ بھی نماز ادا کریں، تب بھی ہزاروں لوگ چند لوگوں کی نماز کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کرتے، نہ ہی وہاں کی پولیس کھڑے ہونے دیتی ہے، تو برائے کرم موجودہ ماحول اور صورت مسئلہ کے مطابق تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔

6۔ کچھ لوگ دوران طواف ابھی حجر اسود  تک آتے بھی نہیں ہیں کہ کچھ دیر پہلے ہی استلام کر لیتے ہیں، تو کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

7۔طواف چاہے عمرے کا ہو یا نفلی اس میں استلام کرنے کی شرعی کیا حیثیت ہے؟ اگر کسی سے ایک چکر میں استلام بھول سے رہ گیا تو کیا حکم ہے؟

8۔ حرم مکی میں شعبان و رمضان میں جس قدر مطاف وغیرہ میں رَش ہوتا ہے، ہر حال میں مرد و عورتیں ایک دوسرے سے مستقل ٹکراتے رہتے ہیں، تو اس کا کیا حکم ہے؟ ٹکرانا ظاہر ہے رش کی وجہ سے ہوتا ہے،   ہر وہ جگہ جہاں مرد و عورت کا اختلاط ہوتا ہے، وہاں شرکت تو ناجائز ہوتی ہے، تو طواف کا کیا حکم ہوگا؟  برائے کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں، نیز اوپر والی منزلوں میں اگرچہ مطاف کی بنسبت رَش کم ہوتا ہے، لیکن اوپر والی منزلوں میں چکر لمبا ہونے کی وجہ سے لوگ کم ہی جاتے ہیں، تو مکمل صورت مسئلہ کا کیا حکم ہے؟

9۔ روضہ رسولﷺ کے سامنے آپ ﷺ کو اپنی زبان میں اپنی کارگزاری یا غم و دکھ سنانا یا کسی امتی کی شکایت عرض کرنا یا کسی اچھی چیز کی سفارش کرنا کیسا ہے؟ واضح رہے کہ صرف سفارش کرنی ہے مانگنا نہیں ہے مانگنا تو اللہ سے ہی ہے، 

10۔ حج و عمرے میں جس قدر عورتیں بےپردگی کرتی ہیں اور منہ کھلا چھوڑ دیتی ہیں، تو ایسی عورتوں کا کیا حکم ہے؟ کیا انکا حج و عمرہ قبول ہوتا ہوگا؟ نیز میں کہتا ہوں کہ ایسی عورتوں کو اتنا ثواب نہیں ملے گا جتنا گناہ مل جائے گا، کیونکہ مقدس جگہوں پر حکم اور بھی سخت ہو جاتا ہے، تو کیا میرا ایسا کہنا ٹھیک ہے؟

جواب

(1)واضح رہے کہ حالت احرام میں سلی ہوئی چیز کی ممانعت سے مراد سلا ہوا کپڑا جو عموما پہنا جاتاہے،جیسے قمیص،شلوار،انڈرویئر،موزے وغیرہ،لہٰذا حالت احرام میں اگر ایسی چپل پہنی جس پر سلائی ہوئی ہو تو یہ احرام کے ممنوعات میں سے نہیں ۔البتہ چپل ایسی ہونی چاہیے  جس میں پاؤں کی اوپرکی ہڈی،ٹخنے اوراس کے مقابل پچھلا حصہ کھلا ہواہو ۔نیز گھڑی پہننابھی منع نہیں۔لہٰذا اگرکسی نے ایسی چپل یا گھڑی پہنی ہو تو اس کا عمرہ ادا ہوگیا اوردم بھی لازم نہیں ۔لیکن اگر  ایسی چپل پہنی کہ پاؤں کی اوپر کی ہڈی یا ٹخنے اوراس کے مقابل پچھلا حصہ اس میں چھپا ہوا ہو اورایسی چپل پورادن (طلوع سے غروب تک)یا اس سے زیادہ پہنی ،تو پھردم لازم ہوگا۔  

شامی میں  ہے:

"(قوله أسفل من الكعبين) الذي في الحديث وليقطعهما حتى يكونا أسفل من الكعبين، وهو أفصح مما هنا ابن كمال والمراد قطعهما بحيث يصير الكعبان وما فوقهما من الساق مكشوفا لا قطع موضع الكعبين فقط كما لا يخفى والنعل هو المداس بكسر الميم وهو ما يلبسه أهل الحرمين ممن له شراك (قوله عند معقد الشراك) وهو المفصل الذي في وسط القدم كذا روى هشام عن محمد، بخلافه في الوضوء فإنه العظم الناتئ أي المرتفع ولم يعين في الحديث أحدهما لكن لما كان الكعب يطلق عليهما حمل على الأول احتياطا لأن الأحوط فيما كان أكثر كشفا بحر."

(حاشیۃ ابن عابدین ط۔الحلبی كتاب الحج،فصل:فی الاحرام ۔ ج:2،ص:490،ط: مصطفی بمصر)

البحرالرئق میں ہے:

"أن القصد من هذا الباب ليس بشرط؛ لأن الناسي والعامد والجاهل سواء."

(كتاب الحج، باب الجنایات فی الحج،ج:3،ص:3،ط:دارالكتاب الاسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

" والأصل فيه ما روي عن عبد الله بن عمر أن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم وقال: ما يلبس المحرم من الثياب؟ فقال: «لا يلبس القميص، ولا العمائم، ، ولا الخفاف إلا أحد لا يجد النعلين، فليلبس الخفين وليقطعهما أسفل من الكعبين."

(كتاب الحج، باب محظورات الاحرام ،ج:2،ص:183،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)

وفيه ايضا:

"إذا لبس المخيط: من قميص، أو جبة۔۔۔۔۔۔أو قلنسوةأو خفين، أو جوربين من غير عذر وضرورة يوما كاملا.فعليه الدم وإن لبس أقل من يوم لا دم عليه وعليه الصدقة."

(كتاب الحج، باب محظورات الاحرام ج:2ص:186/187ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا بأس بشد الهميان أو المنطقة للمحرم سواء كان في الهميان نفقته أو نفقة غيره، وسواء كان شد المنطقة بالإبريسم أو بالسيور هكذا في البدائع والسراج الوهاج."

(كتاب الحج، باب كيفية اداءالحج،ج:1،ص:224،ط:دارالفكرالقاهرة)

(2)پوری مسجد نبوی میں کہیں سے بھی سلام پیش کرنے پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں اورجواب بھی دیتے ہیں البتہ جو دور سےسلام پیش کرتاہے تو وہ فرشتوں کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایاجاتاہے۔

شعب الایمان میں ہے:

"قال الامام البيهقيؒ أخبرنا أبو الحسين بن بشران أنا أبو جعفر محمد بن عمرو بن البختري ثنا عيسى بن عبد الله الطاليسي ثنا العلاء بن عمرو الحنفي ثنا أبو عبد الرحمن عن الأعمش (ح)وأخبرنا: أبو الحسين بن الفضل القطان أنا أبو الحسين أحمد بن عثمان الآدمي ثنا محمد بن يونس بن موسى ثنا الأصمعي ثنا محمد بن مروان السدي عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صل عليّ عند قبري وكل بهما ملك يبلغني وكفى بهما أمر دنياه وآخرته وكنت له شهيدا أو شفيعا هذا اللفظ حديث الأصمعي وفي رواية الحنفي قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ‌من ‌صلى ‌عليّ ‌عند ‌قبري سمعته ومن صلى عليّ نائيا أبلغته."

(باب تعظيم النبي صلي الله عليه وسلم ج:2،ص:218،ط:دارالكتب العلمية بيروت)

"ومن شواهد الحديث ما أخرجه أبو داود من حديث أبي هريرة رفعه وقال فيه وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم سنده صحيح وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ ‌من ‌صلى ‌علي ‌عند ‌قبري سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته."

(باب قول الله تعالي:واذكرني في الكتاب۔۔۔۔۔۔۔۔الخ الاية۔ج:6،ص:488،ط:دارالكتب العلمية)

تذکرۃ الخلیل میں ہے:

آستانہ محمدیہ پر حاضری کے وقت حضرت کی عجیب کیفیت ہوتی تھی ۔آواز نکلناتوکیا مواجہ شریف کے قریب یامقابل بھی آپ کھڑے نہیں ہوتے تھے ۔۔۔۔اوریہ بھی فرمایاکہ مسجدنبوی کی حد میں کتنی ہی پست آواز سےسلام عرض کیا جائے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں ۔

(عنون:عرب کی ہرچیز محبوب ہے،ص:370،ط:مکتبۃ الشیخ)

(3)سلام پھیرتے وقت مقتدی صرف نمازمیں شریک لوگوں ،فرشتوں ،جنات اورامام کی نیت کرے،اگراكيلاہو توصرف فرشتوں كی نيت كرے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نیت کرنا ثابت نہیں ۔

تحفۃ الفقھاءمیں ہے:

"‌ثم ‌ينوي في التسليمة الأولى من كان عن يمينه من الحفظة والرجال والنساء كيف شاء بلا ترتيب وهو الصحيح وفي التسليمة الثانية من كان عن يساره من الحفظة والرجال والنساءهذا في حق الإمام وأما المقتدي فإنه ينوي ما ينوي الإمام وينوي أيضا إن كان يمين الإمام في يساره وإن كان عن يساره ففي يمينه."

(كتاب الصلاة، باب افتتاح الصلاة ج:1،ص:139،ط:الكتب العلمية بيروت)

ردالمحتار میں ہے:

"(وينوي) الإمام بخطابه (السلام على من في يمينه ويساره) ممن معه في صلاته، ولو جناأو نساء، أما سلام التشهد فيعم لعدم الخطاب (والحفظة فيهما) بلا نية عدد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وفی الرد المحتار(قوله ممن معه في صلاته)هذا قول الجمهور."

(كتاب الصلاة، باب:صفۃ الصلاۃ ،ج:1،ص:527،ط:دارالفکر القاھرۃ)

فتح القدیر میں ہے:

"(وينوي بالتسليمة الأولى من عن يمينه من الرجال والنساء والحفظة وكذلك في الثانية) لأن الأعمال بالنيات، ولا ينوي النساء في زماننا ولا من لا شركة له في صلاته، هو الصحيح لأن الخطاب حظ الحاضرين."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة،ج:1،ص:320،ط:مصطفي البابي بمصر)

(4)واضح رہے کہ اجنبی عورت سرسے پاؤں تک سترہے،بلاضرورت اس کے چہرے یا آنکھوں کی طرف دیکھنا جائز نہیں اوربلاشہوت اس کے جسم کی طرف دیکھنا بھی جائز نہیں ۔

تحفۃ الفقھاءمیں ہے:

"وأما النوع الرابع وهو الأجنبيات وذوات الرحم بلا محرم فإنه يحرم النظر إليها أصلا من رأسها إلى قدمها سوى الوجه والكفين فإنه لا بأس بالنظر إليهما من غير شهوة فإن كان غالب رأيه أنه يشتهي يحرم أصلا."

(کتاب الاستحسان ج:3،ص:333،ط:الکتب العلمیۃ بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) النوع السادس وهو الأجنبيات الحرائر فلا يحل النظر للأجنبي من الأجنبية الحرة إلى سائر بدنها إلا الوجه والكفين لقوله تبارك وتعالى {قل للمؤمنين يغضوا من أبصارهم} [النور: 30] إلا أن النظر إلى مواضع الزينة الظاهرة وهي الوجه والكفان رخص بقوله تعالى {ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها} [النور: 31] والمراد من الزينة مواضعها ومواضع الزينة الظاهرة الوجه والكفان فالكحل زينة الوجه والخاتم زينة الكف ولأنها تحتاج إلى البيع والشراء والأخذ والعطاء ولا يمكنهاذلك عادة إلا بكشف الوجه والكفين فيحل لها الكشف."

(کتاب الاستحسان،ج:5،ص:121،ط:دارالکتب العلمیۃ)

(5)نمازی کےآگے سے گزرنا جائز نہیں ،حرم شریف میں بھی کھلے عام نمازی کےآگے سے گزرنے سے اجتناب کرناچاہیے،بلکہ اس صورت میں نمازی  کے آگے رومال ،کپڑے یاچھڑی وغیرہ کا سترہ بناکرگزرناچاہیے۔البتہ اگرشدید مجبوری میں  اس کے سامنے سے گزرگیا توامید کی جاسکتی ہے کہ وہ نمازی کے آگےسے گزرنے کی وعیدمیں نہ آئے۔

المحیط البرھانی میں ہے:

"فإنما يكره ‌المرور بين المصلي وبين السترة إذا كان بين المصلي والمار أقل من مقدار الصفين، أما إذا كان مقدار الصفين فصاعداً فلا يكره."

(كتاب الحج، باب:المروربين يدي المصلي ج:1،ص:432،ط:دارالكتب العلمية بيروت)

البحرالرائق میں ہے:

"قال العلامة الشيخ قطب الدين الحنفي في منسكه في الفصل الرابع من الباب السادس رأيت بخط بعض تلامذة الكمال ابن الهمام في حاشية فتح القدير إذا صلى في المسجد الحرام ينبغي أن لا يمنع المار لما روى أحمد وأبو داود عن المطلب بن أبي وداعة أنه «رأى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي مما يلي ‌باب ‌بني ‌سهم، والناس يمرون بين يديه وليس بينهما سترة» وهو محمول على الطائفين فيما يظهر؛ لأن الطواف صلاة فصار كمن بين يديه صفوف من المصلين اهـ.ثم رأيت في البحر العميق حكى عز الدين بن جماعة عن مشكلات الآثار للطحاوي أن المرور بين يدي المصلي بحضرة الكعبة يجوز اهـ.كذا في حاشية المدني على الدر المختار وباب بني سهم هو المسمى الآن باب العمرة."

(كتاب الحج،باب الاحرام،ج:2،ص:357،ط:دارالكتاب الاسلامي)

(6 /7)طواف میں استلام کرنا سنت ہےاوراس کا موقع ومحل حجراسود کے بالکل سامنےہے،لہٰذا اس سےدائیں بائیں استلام کرنا خلاف سنت ہے۔البتہ اگربھول سے استلام رہ جائےتو طواف اداہوجائےگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(واستلمه) بكفيه وقبله بلا صوت (بلا إيذاء) لأنه سنة ‌۔وصفة ‌الاستلام أن يضع كفيه على الحجر ويضع فمه بين كفيه ويقبله."

(كتاب الحج، فصل في الاحرام۔۔۔۔۔۔ج:2،ص:493،ط:دارالفكرالقاهرة)

بذل المجھود میں ہے:

"قال الجمهور: إن السنَّة أن يستلم الركن، ويقبل يده، فإن لم يستطع أن يستلمه بيده استلمه بشيء في يده، وقبَّل ذلك الشيء، فإن لم يستطع أشار إليه واكتفى بذلك۔"

(كتاب الحج،باب الطواف الواجب ج:7،ص:285،ط: للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

(8)اعمال حج وعمرہ ادائیگی کےدوران جواختلاط مردوعورت ہوتاہے وہ ایک شرعی عذر ہےجوکئی اسباب پرمشتمل ہے اور دورخیرالقرون سے چلا آرہاہےمختلف کمیات اورکیفیات کے ساتھ  ( اس پر دوسری جگہوں میں عام  اختلاط کو جائز نہیں کہاجاسکتا)لیکن پھربھی حد درجہ احتیاط کرنی چاہیے۔اورخواتین  کومردوں سے ذراپیچھے ہٹ کر خانہ کعبہ سے قدرفاصلے پر طواف کرلینا چاہیے۔

الکواکب الدراری میں ہے:

"وقال لي عمرو بن علي حدثنا أبو عاصم قال ابن جريج أخبرنا قال أخبرني عطاءإذ منع ابن هشام النساء الطواف مع الرجال قال كيف يمنعهن وقد طاف نساء النبي صلى الله عليه وسلم مع الرجال قلت أبعد الحجاب أو قبل قال إي لعمري لقد أدركته بعد الحجاب قلت كيف يخالطن الرجال قال لم يكن يخالطن كانت عائشة رضي الله عنها تطوف حجرة من الرجال لا تخالطهم فقالت امرأة انطلقي نستلم يا أم المؤمنين قالت انطلقي عنك وأبت يخرجن متنكرات بالليل فيطفن مع الرجال ولكنهن كن إذا دخلن البيت قمن حتى يدخلن وأخرج الرجال۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ وفي حديث اخر: عن أم سلمة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أشتكي فقال طوفي من وراء الناس وأنت راكبة فطفت۔۔۔۔۔۔الخ قال محشيه:قوله (شكوت أنى أشتكي) أي شكوت مرضى وانما أمرها بالطواف من وراء الناس لان سنة النساء التباعد عن الرجال في الطواف۔۔۔۔۔۔الخ"

(كتاب الحج،باب طواف النساء مع الرجال، ج:8،ص:128،ط:داراحياء التراث العربي)

سنن سعید بن منصورمیں ہے:

"قال الامام البیھقی:حدثنا سعيد، قال: نا عبد الرحمن بن زياد، عن شعبة، عن سلمة بن كهيل، قال: سمعت مجاهدا يقول: ‌إنما ‌سميت(مکۃ)‌بكة؛ لأن الناس يبك بعضهم بعضا وزادفی روایۃ: ((وأنه يحل فيها ما لا يحل في غيرها))."

(باب تفسیرسورۃ آل عمران،ان اول بیت۔۔۔۔۔۔۔الایۃج:3،ص:1074،ط:دارالصميعي للنشر والتوزيع)

(9)روضئہ اقدس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے آپ سے دعا کروانایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرواناکہ "یارسول اللہ دعا فرمادیں یامیری سفارش فرمادیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہ چیز عطا  کردے"یہ جائزہے۔

الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:

"فيتوجه إلى قبره صلى الله عليه وسلم فيقف عند رأسه صلى الله عليه وسلم مستقبلا للقبلة، يدنو منه قدر ثلاثة أذرع أو أربعة، ولا يدنو منه أكثر من ذلك، ولا يضع يده على جدار التربة فهو أهيب وأعظم للحرمة، ويقف كما يقف في الصلاة، ويمثل صورته الكريمة البهية صلى الله عليه وسلم كأنه نائم في لحده، عالم به يسمع كلامه، قال صلى الله عليه وسلم: «من صلى علي عند قبري سمعته»."

(كتاب الحج، باب الھدی،ج:1،ص:176،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)

مراقی الفلاح میں ہے:

"ویقول عند قبرہ علیہ الصلوۃ والسلام: يا رسول الله نحن وفدك وزوار حرمك تشرفنا بالحلولبين يديك وقد جئناك من بلاد شاسعة وأمكنة بعيدة نقطع السهل والوعر بقصد زيارتك لنفوز بشفاعتك والنظر إلى مآثرك ومعاهدك والقيام بقضاء بعض حقك والاستشفاع بك إلى ربنا فإن الخطايا قد قصمت ظهورنا والأوزار قد أثقلت كواهلنا وأنت الشافع المشفع الموعود بالشفاعة العظمى."

(كتاب الحج، باب زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،ص:284،ط:المکتبۃ العصریۃ)

(10)واضح رہے کہ احرام کی حالت میں مرد کے  لیے اپنا سرکھلارکھنا اورعورت کے  لیے چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے،اس  لیے دورانِ احرام عورت اپنے چہرے پر ایسانقاب نہیں ڈالے گی جو اس کے چہرے پرلگے، بلکہ ایسے نقاب جوعورتوں کے احرام کے  لیے بنائےجاتے ہیں جن سے کپڑاچہرےپر نہیں لگتا، وہ پہنے گی،  اور احرام میں  اس طرح   چہرہ  کھلا رکھنے  پر اس کو کوئی  گناہ نہیں۔ تاہم پردے کا حکم احرام کے دوران بھی ہے۔

المبسوط میں ہے:

"وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم «‌إحرام ‌الرجل في رأسه، وإحرام المرأة في وجهها» فعرفنا أنها لا تغطي وجهها إلا أن لها أن تسدل على وجهها إذا أرادت ذلك على وجه تجافي عن وجهها هكذا روي عن عائشة رضي الله عنها قالت: «كنا في الإحرام مع رسول الله صلى الله عليه وسلم نكشف وجوهنا فإذا استقبلنا قوم أسدلنا من غير أن نصيب وجوهنا."

(کتاب الحج،باب القران،فصل:اراد التمتع ولم یسق ھدیا،ج:4،ص:33،ط:دارالمعرفۃ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما المرأة فلا تغطي وجهها.وكذا لا بأس أن تسدل على وجهها بثوب وتجافيه عن وجهها."

(كتاب الحج، باب محظورات الاحرام ج:2،ص:185،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں