بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج اسکیم کے تحت لوگوں کی حج کی بقایا رقم کو اپنے استعمال میں لانے کا حکم


سوال

بندہ ایک ایسے مدرسہ کو چلا رہا ہے جہاں صرف تعلیم بالغاں کا اہتمام ہوتا ہے، ہمارے ہاں صرف پڑھا لکھا طبقہ آتا ہے، اس لیے مختلف کورسز وغیرہ کروائے جاتے ہیں، جس میں ان سے فیس بھی لی جاتی ہے۔ عرض یہ ہے کہ  اس سال حج کا قافلہ لے کر جانے کا ارادہ ہے ،سوال یہ ہے کہ کیا بندہ اس حج پیکج سےاپنے لیے کچھ نفع رکھ سکتا ہے؟ تاکہ اس قافلہ کے ساتھ  خود بھی حج پر جا سکوں،جب کہ صرف  نام مدرسے کا استعمال ہو رہا ہے۔

تنقیح:

سائل اس بات کی وضاحت کرے کہ لوگوں سے کیا کہہ کر  یا کیا  طے کرکے رقم جمع کی جاتی ہے؟اور کیا طریقۂ کار ہوتا ہے؟مکمل وضاحت کے ساتھ دوبارہ سوال لکھ کر ارسال کریں،ان شاء اللہ جواب دے دیا جاۓ گا۔

جواب ِ تنقیح:

 جیسا کہ عرض کیا کہ بندہ  ادارہ کا متولی ہے، اور ادارے  کی جانب سے لوگوں کو علماء کی زیر ِ نگرانی حج کے قافلہ کی صورت میں لے کرحج پر جا رہے ہیں،اس گروپ کاعنوان "علماء کرام کے ساتھ حج کیجیے" ہے،ہماری طرف سے لوگوں کو فراہم کیا جانے والا حج پیکج فکس ہے،جس میں ہماری طرف سے انتظامات اور سہولیات فراہم کیے جانے  کےعوض مخصوص رقم لی جاۓ گی اور بچنے والی رقم واپس نہیں کی جائے گی،توکیامیرے لئے اس میں سے رقم بطور نفع کما کر اسی رقم سے حج پر جانا درست ہے؟یہ انتظام ہماری طرف سے ہے ،بس نام مدرسے کا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر حج اسکیم واقعتاًآپ کی جانب سے ہے اور آپ نےاس اسکیم کے تحت لوگوں سے رقوم لے کر انہیں حج پر لے جانے کا انتظام کیاہے تو ایسی صورت میں بقیہ جتنی رقم  اخراجات میں صرف ہونے کے بعد بطور نفع کے آپ کو حاصل ہو،اس رقم کا استعمال آپ کے لیے جائز ہوگا اورآپ اس رقم سے حج پرجاسکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فالأول من يعمل لا لواحد) كالخياط ونحوه (أو يعمل له عملا غير مؤقت) كأن استأجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان أجيرا مشتركا وإن لم يعمل لغيره (أو موقتا بلا تخصيص)... (ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل)."

(کتاب الأجارۃ، باب ضمان الأجیر، ج:6، ص:64، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ونوع ‌يرد ‌على ‌العمل كاستئجار المحترفين للأعمال كالقصارة والخياطة والكتابة وما أشبه ذلك، كذا في المحيط."

(كتاب الإجارة،‌‌ الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج:4، ص:409، ط:رشیدیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"والأجير قد يكون خاصا وهو الذي يعمل لواحد وهو المسمى بأجير الواحد، وقد يكون مشتركا وهو الذي ‌يعمل ‌لعامة ‌الناس وهو المسمى بالأجير المشترك."

(كتاب الإجارة،‌‌ ج:4، ص:174، ط:دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں