بندہ ایک ایسے مدرسہ کو چلا رہا ہے جہاں صرف تعلیم بالغاں کا اہتمام ہوتا ہے، ہمارے ہاں صرف پڑھا لکھا طبقہ آتا ہے، اس لیے مختلف کورسز وغیرہ کروائے جاتے ہیں، جس میں ان سے فیس بھی لی جاتی ہے۔ عرض یہ ہے کہ اس سال حج کا قافلہ لے کر جانے کا ارادہ ہے ،سوال یہ ہے کہ کیا بندہ اس حج پیکج سےاپنے لیے کچھ نفع رکھ سکتا ہے؟ تاکہ اس قافلہ کے ساتھ خود بھی حج پر جا سکوں،جب کہ صرف نام مدرسے کا استعمال ہو رہا ہے۔
تنقیح:
سائل اس بات کی وضاحت کرے کہ لوگوں سے کیا کہہ کر یا کیا طے کرکے رقم جمع کی جاتی ہے؟اور کیا طریقۂ کار ہوتا ہے؟مکمل وضاحت کے ساتھ دوبارہ سوال لکھ کر ارسال کریں،ان شاء اللہ جواب دے دیا جاۓ گا۔
جواب ِ تنقیح:
صورتِ مسئولہ میں اگر حج اسکیم واقعتاًآپ کی جانب سے ہے اور آپ نےاس اسکیم کے تحت لوگوں سے رقوم لے کر انہیں حج پر لے جانے کا انتظام کیاہے تو ایسی صورت میں بقیہ جتنی رقم اخراجات میں صرف ہونے کے بعد بطور نفع کے آپ کو حاصل ہو،اس رقم کا استعمال آپ کے لیے جائز ہوگا اورآپ اس رقم سے حج پرجاسکتے ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فالأول من يعمل لا لواحد) كالخياط ونحوه (أو يعمل له عملا غير مؤقت) كأن استأجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان أجيرا مشتركا وإن لم يعمل لغيره (أو موقتا بلا تخصيص)... (ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل)."
(کتاب الأجارۃ، باب ضمان الأجیر، ج:6، ص:64، ط:سعيد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ونوع يرد على العمل كاستئجار المحترفين للأعمال كالقصارة والخياطة والكتابة وما أشبه ذلك، كذا في المحيط."
(كتاب الإجارة، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج:4، ص:409، ط:رشیدیة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"والأجير قد يكون خاصا وهو الذي يعمل لواحد وهو المسمى بأجير الواحد، وقد يكون مشتركا وهو الذي يعمل لعامة الناس وهو المسمى بالأجير المشترك."
(كتاب الإجارة، ج:4، ص:174، ط:دارالكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144506102381
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن