ہم سات آدمیوں نے 1978 میں حج کرتےہوئے اولاً منی میں ایک آدمی کو دو ،دوسو ریال دیے کہ آپ 1400ریال کی گائے خرید کر ہماری طرف سے قربانی کر دیں،اس کے بعد ان حضرات نے لا علمی کی وجہ سے احرام کھول دیااور حلق بھی کروا لیا،اور اس کے بعد دس تاریخ کی کنکریاں ماریں ،پھر اس کے بعد جب اس آدمی سے قربانی کے بارے میں پوچھا، تو اس نے کہا کہ میری جیب کٹ گئی ہےاور پیسے چوری ہو گئے ہیں ،جس کی وجہ سے قربانی نہیں کی،تو ہم سب حضرات نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم نے چوں کہ پیسے دے دیے تھے ،تو ہماری قربانی ہو گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے مجھ پر کیا لازم ہے؟شریعت کا کیا حکم ہے؟کیوں کی اس کے بعد آج تک میں نے نہ عمرہ کیا ہےاور نہ ہی حج۔
وضاحت: حج تمتع تھا یا قران،حج افراد نہ تھا،کمپنی کی طرف سے اجازت ہوئی کہ آپ حج کر لیں ،تو اس وقت ہمارے ساتھ کوئی رہنمانہیں تھا۔
واضح رہے کہ اگر حج کرنے والا حجِ قران یا حجِ تمتع کر رہا ہے تو اس پر ایامِ نحر (10 ،11 ،12 ذوالحجہ) احرام کھولنے سے پہلے دمِ شکر کے طور پر بڑے جانور میں ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہے، دم شکر کے طور پر کی جانے والی قربانی حدود حرم سے باہر اپنے ملک میں کرنا جائز نہیں ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں جب سائل اور اس کے ساتھیوں نے خواہ قارن تھے یا متمتع ،حدودِ حرم میں قربانی کے بغیر حلق کرواکر اپنے احرام کھول دیے اور اپنے ملک واپس آگئے، تو ان پر تین دم لازم ہوں گے، ایک دمِ شکر، اور دو دم جنایت، ایک دمِ جنایت اس لیے کہ انھوں نے حدودِ حرم میں قربانی میں تاخیر کردی اور دوسرا دمِ جنایت اس بنا پر کہ حدودِ حرم میں قربانی سے قبل انھوں نے احرام کھول دیا اور حلق کروادیا،(یعنی ترتیب کی رعایت نہ رکھنے کی وجہ سے)اور یہ تینوں دم حدودِ حرم میں ذبح کروانے لازم ہیں، چاہے وہ خود اس کا انتظام کریں یاوہاں کسی کو اپنا وکیل بنادیں دونوں صورتیں جائز ہیں، اپنے ملک میں ادا کرنے سے دم ادا نہیں ہوگا۔
غنیۃ الناسک میں ہے :
"و في الكبير: إذا حلق القارن قبل الذبح و أخر إراقة الدم عن أيام النحر أيضًا، ينبغي أن يجب عليه ثلاثة دماء، دم لحلقه قبل الذبح، و دم لتاخير الذبح عن أيام، و دم للقران والتمتع ۔۔۔۔۔۔لو حلق المفرد أو غیره قبل الرمي أو القارن أو المتمتع قبل الذبح أو ذبحًا قبل الرمي فعلیه دم عند أبي حنیفة بترك الترتیب."
(باب الجنايات، الفصل السابع في ترك الواجب في أفعال الحج ، ص: 279، 280، ط: ادارۃ القرآن)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"ويبدأ إذا وافى منى برمي جمرة العقبة ثم بالذبح إن كان قارنا أو متمتعا ثم بالحلق لحديث عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن أول نسكنا في هذا اليوم أن نرمي ثم نذبح ثم نحلق."
(باب رمي الجمار، ج: 4، ص: 113، ط: دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101784
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن