بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج ، زکوۃ اور قربانی کا حکم


سوال

 ایک شخص نے تقریبًا ۲۵ لاکھ پنشن لے لی، اور اس ۲۵ لاکھ کے بعد ہر مہینے تقریبًا ۳۵ ہزار لیتے ہیں تو  سوال یہ ہے کہ  کیا اس شخص پر حج،عمرہ ،عیدالاضحی کی قربانی اور زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟  ۲۵ لاکھ پنشن لینے کے بعد   بیٹے کی شادی پر ۳   لاکھ فورًا خرچ کیا،  اس کے بعد پلاٹ خریدا، کاروبار کے لیے دکان خریدی۔ لہذا شریعت کی رو سے اس کا حل بتائیں ؟


جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ شخص نے 25 لاکھ روپے پینشن وصول کی اور اس کے بعد اس کو مذکورہ حوائج یعنی بیٹے کی شادی  پلاٹ خریدنے اور  کاروبار کے لیے دکان خریدنے پر لگا دیا تو اس صورت میں اگر اس کے پاس  كسي بھي وقت موجودہ کل مالیت  مىں  سونا چاندی کیش یا انویسٹمنٹ اور اگر پلاٹ بیچنے کی نیت سے خریدا ہو ،یہ تمام رقم نصاب تک پہنچتی ہے تو مذکورہ شخص پر   سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ لازم ہے ۔

قربانی کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ آدمی اگر نصاب کا مالک ہے  یا اس کے پاس ضرورت سے زائد اتنی چیزیں ہیں کہ جن کی قیمت نصاب کے برابر ہے اور یہ نصاب یا مالیت قربانی کے تین دنوں میں سے کسی دن اس کے پاس موجود ہو تو اس پر قربانی  لازم ہوگی۔

جس آدمی کے پاس قرض وغیرہ کے  علاوہ اتنی رقم موجود ہے  جس سے  وہ حج کر سکتا ہے اور واپس آنے تک گھر کے اہل و عیال کا خرچہ بھی موجود ہے تو  اس پر حج فرض ہوتا ہے۔ موجودہ  دور  میں  حکومت  کی  طرف  سے  حج کے  لیے جتنی رقم کا اعلان کیا جاتا ہے، اگر اتنی رقم اور واپس آنے تک  گھر کے اہل و عیال کے خرچے کی رقم موجود ہے  تو حج فرض ہوتا ہے؛  لہذا سائل کے پاس اگر اتنی  رقم ہوگی تو حج فرض ہو گا۔ 

اور عمرہ کرنا سنت ہے،  فرض یا واجب نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے: 

"‌وشرائطه ‌ثلاثة: شرائط وجوب، وشرائط وجوب أداء، وشرائط صحة، فالأولى ثمانية على الأصح: الإسلام، والعقل، والبلوغ، والحرية، والوقت، والقدرة على الزاد، والقدرة على الراحلة، والعلم بكون الحج فرضا، وقد ذكر المصنف منها ستة وترك الأول والأخير، والعذر له كغيره أنهما شرطان لكل عبادة وقد يقال: كذلك العقل والبلوغ والعلم المذكور يثبت لمن في دار الإسلام بمجرد الوجود فيها سواء علم بالفرضية أو لم يعلم، ولا فرق في ذلك بين أن يكون نشأ على الإسلام فيها أو لا، فيكون ذلك علما حكميا، ولمن في دار الحرب بإخبار رجلين أو رجل وامرأتين، ولو مستورين أو واحد عدل وعندهما لا تشترط العدالة والبلوغ والحرية فيه وفي نظائره الخمسة كما عرف أصولا وفروعا، والثانية خمسة على الأصح: صحة البدن، وزوال الموانع الحسية عن الذهاب إلى الحج، وأمن الطريق، وعدم قيام العدة في حق المرأة، وخروج الزوج أو المحرم معها، والثالثة أعني شرائط الصحة أربعة: الإحرام بالحج، والوقت المخصوص، والمكان المخصوص، والإسلام".

(کتاب الحج،ج:2، ص: 538،539، ط:دار الکتب العلمیة)

در مختار میں ہے:

"(وَ) فَضْلًا عَنْ (نَفَقَةِ عِيَالِهِ) مِمَّنْ تَلْزَمُهُ نَفَقَتُهُ لِتَقَدُّمِ حَقِّ الْعَبْدِ(إلَى) حِينِ (عَوْدِهِ) وَقِيلَ بَعْدَهُ بِيَوْمٍ وَقِيلَ بِشَهْرٍ."

( كتاب الحج، ج:2، ص:462،463، ط:سعيد)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں