حج کو جانے سے پہلے سب رشتہ داروں کو کھانا کھلانا ضروری ہے کیا؟ سب سےمل کر معافی مانگنا ضروری ہے کیا ؟
1: واضح رہے کہ حج پر جانے سے پہلے سب رشتہ داروں کو کھانا کھلانا ضروری نہیں ہے،اس قسم کی دعوت کا اہتمام کرنا اور اس کو لازم سمجھنا بھی غلط ہے۔البتہ مہمان آئے ہوئے ہوں اوربلا تکلف ان کی خاطر کی جائے تو اس میں قباحت نہیں۔
2:حج پر جانےسے پہلے کسی کا قرض اور حق ذمہ ہو تو اس کو ادا کرنا لازمی ہے، نیز اگر کسی کو تکلیف پہنچائی ہو تو اس سے کھلے دل سے معافی مانگنا چاہیے محض رسمی کلمات کہنے سے ذمہ داری ادا نہیں ہوتی، البتہ اگر کسی نے صراحت سے کہہ دیا کہ میں نے معاف کردیا تو معافی ہوجائے گی۔
بخاری شریف میں ہے: ”عن عائشة رضي اللّٰه عنها قالت : قال رسول الله صلی الله علیه وسلم : ’’من أحدث في أمرنا هذا ما لیس فیه فهو ردٌّ ‘‘.
(صحیح البخاري، کتاب الصلح .ج:1،ص:371، ط: قدیمي)
ترجمہ:” جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے“۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
(وأما آدابه) فإنه إذا أراد الرجل أن يحج قالوا ينبغي أن يقضي ديونه كذا في الظهيرية ويشاور ذا رأي في سفره في ذلك الوقت لا في نفس الحج فإنه خير، وكذا يستخير الله - تعالى - في ذلك، وسنتها أن يصلي ركعتين بسورة الإخلاص ويدعو بالدعاء المعروف للاستخارة عنه عليه السلام ثم يبدأ بالتوبة، وإخلاص النية ورد المظالم والاستحلال من خصومه، ومن كل من عامله كذا في فتح القدير وقضاء ما قصر في فعله من العبادات، والندم على تفريطه في ذلك، والعزم على عدم العود إلى مثل ذلك، كذا في البحر الرائق ويتجرد عن الرياء والسمعة والفخر ولذا كره
(الفتاوی الھندیہ، ج:1، ص:219، ط: دار الفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102648
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن