بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج و عمرے کا کاروبار فروخت کرنے کا حکم


سوال

 میں 13 سال سے حج عمرہ کا کاروبار کر رہا ہوں،  سال 2019 کے اختتام پر میں نے دو لاکھ درہم سالانہ کمائے، تین اشخاص (زید عمرو بکر) میرے پاس آئے اور درخواست کی کہ میں ان کو اپنے کاروبار میں شریک کر لوں،  میں نے ان کی درخواست منظور کرلی اور اپنے کاروبار کی قیمت پانچ لاکھ درہم لگائی جن میں سے 125000 میرا حصہ ہوا  اور باقی شرکاء سے کہا کہ ہر شخص 125000 درہم لاکر مجھے دے تاکہ   تینوں میں سے ہر ایک  کاروبار میں برابر 25 فیصد کا شریک ہوجائے، اس طرح میں نے اپنے کاروبار کا کل 75 فیصد حصہ 375000 کے عوض ان تین اشخاص کو فروخت کردیا، یہ 375000 درہم ادا کرکے کے وہ تینوں اشخاص میرے اس چلتے ہوئے کاروبار میں میرے ساتھ نفع اور نقصان میں بھی شریک ہوگئے، کاروبار کی ملکیت میں بھی شریک ہوگئے، اور اگر کبھی اس کاروبار کو بیچنے کی نوبت آئی تو جو بھی اس وقت اس کی قیمت ہوگی اس میں بھی شریک ہوں گے،  اب میرا موقف یہ ہے کہ یہ 375000 درہم میرا ذاتی مال ہے؛ کیوں کہ فرض کریں اگر آئندہ سال بھی کاروبار کو دو لاکھ درہم نفع ہوا تو اب اس میں سے صرف 50 ہزار درہم مجھے ملیں گے جبکہ بقیہ ڈیڑھ لاکھ ان تین شرکاء میں تقسیم ہوگا ،لہذا یہ ساڑھے سات لاکھ درہم میرے ذاتی ہوئے ورنہ مجھے کیا پڑی تھی کہ میں خواہ مخواہ اپنے 2 لاکھ کا نفع کسی کے ساتھ شریک کرتا، ہاں! اس کے بعد کاروبار کو مزید آگے بڑھانے کے لیے اگر ان شرکاء نے پیسہ دیا تو بلا شبہ وہ پیسہ میرے پاس ان کی امانت ہوگا جس کو میں صرف کاروبار اور اس کے تقاضوں ہی میں لگا سکوں گا، لیکن جو پیسہ انہوں نے مجھے کاروبار میں 25 فیصد کا شریک ہونے کے لیے دیا تھا وہ میرا ذاتی پیسہ ہے، ان شریکوں میں سے کوئی بھی مجھ سے ان کا حساب مانگنے  کا حق نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ مطالبہ کرسکتا کہ میں وہ 375000 درہم کاروبار میں اور اس کے تقاضوں میں لگاؤں اب ان میں سے ایک شریک یہ کہتا ہے ہے کہ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ آپ میرے دئیے ہوئے سوا لاکھ درہم کاروبار میں صرف کریں گے۔ اب سوال میرا یہ ہے کہ کیا میں نے جو معاملہ کیا ہے وہ اور میرا موقف درست ہے یا نہیں؟ یا پھر اس شریک کا موقف صحیح ہے؟ جب کہ باقی دونوں شریک بھی میرے موقف کی تائید کرتے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل نے مذکورہ کاروبار کے لائسنس سمیت دوسرے اثاثوں (دکان، دفتر وغیرہ) کی  مجموعی قیمت پانچ لاکھ درہم لگائی اور پھر اس میں سے تین حصے 375000 روپے کے عوض ان  تین اشخاص کو فروخت کیے تو اس صورت میں سائل کا یہ معاملہ کرنا درست ہوا، اور اس سے جو رقم (375000) حاصل ہوئی ہے سائل اس کا مالک ہے،  اسے کاروبار میں لگانا سائل پر لازم نہیں ہے،اور نہ ہی باقی شرکاء سائل سے اس رقم میں کسی قسم کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں، وہ  تین شرکاء  اپنی رقم کے عوض کاروبار میں سےاپنے اپنے 25 فیصد حصے کے مالک ہیں۔

الدر مع الرد میں ہے:

"و في التتارخانية عن التتمة: سئل والدي عن أحد شريكي عنان اشترى بما في يده من المال عروضا ثم قال لأجنبي: أشركتك في نصيبي مما اشتريت قال: يصير شريكًا له شركة ملك."

(کتاب الشرکۃ، فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ،ج4،ص329،ط: سعید)

ہندیہ میں ہے:

" و شركة الملك نوعان: شركة جبر، و شركة اختيار فشركة الجبر أن يختلط المالان لرجلين بغير اختيار المالكين خلطًا لايمكن التمييز بينهما حقيقة بأن كان الجنس واحدًا أو يمكن التمييز بضرب كلفة و مشقة نحو أن تختلط الحنطة بالشعير أو يرثا مالًا و شركة الاختيار أن يوهب لهما مال أو يملكا مالا باستيلاء أو يخلطا مالهما، كذا في الذخيرة أو يملكا مالا بالشراء أو بالصدقة، كذا في فتاوى قاضي خان أو يوصى لهما فيقبلان، كذا في الاختيار شرح المختار."

(کتاب الشرکۃ،ج2،ص301،ط: ماجدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں