بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج یا عمرہ پر جانے والوں سے روضۂ اطہر پر سلام پیش کرنے کی درخواست کرنا


سوال

ہمارے ہاں رواج سا ہے کہ حج یا عمرہ کے لیے جانے والوں کو کہا جاتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ روضہ پر جاؤ تو میرا سلام کہنا، کیا یہ درست عمل ہے؟

جواب

اگر کوئی حج یا عمرہ پر جانے والے کو روضۂ  اطہر (على صاحبها ألف ألف صلاة و سلام) پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمتِ اقدس میں سلام اور شفاعت کی درخواست پیش کرنے کا کہتا ہے تو اس شخص پر کہنے والے کا سلام پہنچانا امانتًا واجب ہوجاتا ہے۔ اور وہ شخص جب روضۂ  اطہر پر پہنچے تو پہلے اپنی طرف سے صلاۃ و سلام پیش کرنے کے بعد، پھر اس کہنے والے کی طرف سے درج ذیل الفاظ سے سلام پیش کرے گا اور شفاعت کی درخواست کرے گا:

’’اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ مِنْ فلان بن فلان يَتَشَفَّعُ بِكَ إِلٰى رَبِّكَ فَاشْفَعْ لَهٗ وَ لِلْمُسْلِمِيْنَ.‘‘

ترجمہ: یارسول اللہ! آپ پر فلان بن فلان(لفظ فلان کی جگہ سلام بھیجنے والے کا نام لیا جائے) کی طرف سے سلام ہے، جو آپ کے رب کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کا امیدوار ہے، آپ اس کی  اور تمام مسلمانوں  کی شفاعت  فرمائیے۔

باقی یہ کوئی رسمی رواج نہیں ہے، بلکہ امتِ محمدیہ کا ایک متوارث  سلسلہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے چلا آرہاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپس میں ایک دوسرے کو سلام بھجواتے تھے، اور  سلام لے جانے والا  پھر یوں سلام کرتا کہ فلاں صاحب نے آپ کو سلام بھجوایا ہے، اور جواب میں اس سے کہا جاتا کہ آپ پر بھی سلام اور اس بھیجنے والے پر بھی سلام۔

اسی طرح  صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں حیات ہیں، اور احادیثِ مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے روضۂ  اطہر کے سامنے کھڑا ہوکر سلام پیش کرتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسے خود سنتے ہیں اور اس کا جواب بھی دیتے ہیں اور جو شخص دور سے ہی سلام کہتا ہے تو فرشتوں کے ذریعہ وہ سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔ بلکہ امتیوں کی طرف سے رسول اللہ ﷺ تک درود و سلام پہنچانے کے لیے مستقل طور پر فرشتے  مقرر ہیں، وہ زمین میں سیاحت کرتے رہتے ہیں اور جو امتی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجتا ہے ، وہ فرشتے اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچا دیتے ہیں۔

لہٰذا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتے ہیں، وہ براہِ راست روضہ اقدس پر حاضر ہوکر صلاۃ و سلام پیش کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ خود براہِ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہونے کا وسیلہ نہیں پاتے، وہ موقع غنیمت جانتے ہوئے زائرینِ حرمین شریفین سے بارگاہِ اقدس میں سلام پیش کرنے کی عاجزانہ درخواست  کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کی آس لگاتے ہیں، اگرچہ امتیوں کا سلام فرشتوں کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ رہا ہوتا ہے،لیکن آمنے  سامنے کی بات ہی اور ہوتی ہے۔

صحيح البخاري (ج:8، ص:56، ط : دار طوق النجاة ):

’’باب إذا قال: فلان يقرئك السلام: حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن عائشة رضي الله عنها، حدثته: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها: «إن جبريل يقرئك السلام» قالت: وعليه السلام ورحمة الله.‘‘

صحيح مسلم (ج:3، ص:1506، ط : دار إحياء التراث العربي):

’’عن أنس بن مالك، أن فتى من أسلم قال: يا رسول الله، إني أريد الغزو وليس معي ما أتجهز، قال: «ائت فلانا، فإنه قد كان تجهز، فمرض»، فأتاه، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرئك السلام، ويقول: أعطني الذي تجهزت به، قال: يا فلانة، أعطيه الذي تجهزت به، ولا تحبسي عنه شيئا، فوالله، لا تحبسي منه شيئا، فيبارك لك فيه.‘‘

مصنف ابن أبي شيبة (ج:5، ص:243، ط : مكتبة الرشد - الرياض):

’’حدثنا أبو بكر قال: حدثنا إسماعيل ابن علية، عن غالب، قال: إنا لجلوس بباب الحسن إذ جاءه رجل، فقال: حدثني أبي عن جدي، قال: بعثني أبي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: ائته فأقرئه السلام، فأتيته فقلت: إن أبي يقرئك السلام، فقال: «وعليك، وعلى أبيك السلام».‘‘

شعب الإيمان للبيهقي (ج:3، ص:140، ط : مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض):

’’عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى علي عند قبري وكل بها ملك يبلغني، وكفي بها أمر دنياه وآخرته، وكنت له شهيدا أو شفعيا " هذا لفظ حديث الأصمعي، وفي رواية الحنفي قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من صلى علي عند قبري سمعته، ومن صلى علي نائيا أبلغته.‘‘

سنن النسائي (ج:3، ص:43، ط : مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب):

’’عن زاذان، عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني من أمتي السلام».‘‘

فتح الباري لابن حجر (ج:6، ص:488، ط : دار المعرفة-بيروت):

’’ومن شواهد الحديث ما أخرجه أبو داود من حديث أبي هريرة رفعه وقال فيه وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم سنده صحيح وأخرجه أبو الشيخ في كتاب الثواب بسند جيد بلفظ من صلى علي عند قبري سمعته ومن صلى علي نائيا بلغته وعند أبي داود والنسائي وصححه بن خزيمة وغيره عن أوس بن أوس رفعه في فضل يوم الجمعة فأكثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي قالوا يا رسول الله وكيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت قال إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:6، ص:415، ط : دار الفكر-بيروت):

’’ولو قال لآخر: أقرئ فلانا السلام يجب عليه ذلك.

(قوله: يجب عليه ذلك) لأنه من إيصال الأمانة لمستحقها، والظاهر أن هذا إذا رضي بتحملها تأمل. ثم رأيت في شرح المناوي عن ابن حجر التحقيق أن الرسول إن التزمه أشبه الأمانة وإلا فوديعة اهـ. أي فلا يجب عليه الذهاب لتبليغه كما في الوديعة قال الشرنبلالي: وهكذا عليه تبليغ السلام إلى حضرة النبي صلى الله عليه وسلم عن الذي أمره به؛ وقال أيضًا: ويستحب أن يرد على المبلغ أيضا فيقول: وعليك وعليه السلام اهـ. ومثله في شرح تحفة الأقران للمصنف، وزاد وعن ابن عباس يجب اهـ. لكن قال في التتارخانية ذكر محمد حديثا يدل على أن من بلغ إنسانا سلاما عن غائب كان عليه أن يرد الجواب على المبلغ أولا ثم على ذلك الغائب اهـ. وظاهره الوجوب تأمل.‘‘

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص:748، ط : دار الكتب العلمية-بيروت):

’’وتبلغه سلام من أوصاك به فتقول: السلام عليك يا رسول الله من فلان بن فلان يتشفع بك إلى ربك فاشفع له وللمسلمين.

قوله: "وتبلغه سلام من أوصاك" ذكروا أن تبليغ السلام واجب لأنه من أداء الأمانة.‘‘

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112201144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں