بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج میں جمع بین الصلاتین کب کریں؟ مکروہ وقت میں طواف کرنے کی صورت میں نفل کب ادا کریں؟احرام میں ہونٹ چبانے کا حکم


سوال

1۔دوران حج منی مزدلفہ یا عرفات میں کن نمازوں میں جمع بین الصلوتین کریں؟

2۔طواف زیارت آخری دن یعنی تیرہ ذوالحجہ میں عصر کے بعد مغرب سے کچھ قبل کیا ،تو اب طواف کے دو نفل اسی وقت پڑھے ؟یا پھر چودہ ذوالحجہ کو   یعنی   مغرب کے بعد پڑھے؟

3۔حالت احرام میں ہونٹ کی کھال چبانے کی صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ  ایام حج میں میدان عرفات  میں مسجد نمرہ کے  امام کی اقتدا میں نماز باجماعت  ادا کرنے کی صورت میں مقتدی  ظہر اور عصر کی نماز  میں جمع بین الصلاتین کرے گا،(یعنی ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو ظہر کے وقت ادا کرے گا) لیکن اگر تنہا نماز ادا کرے گا یا  اپنے امام (جو بادشاہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا نہ ہو اس ) کی اقتداء میں نماز   با جماعت ادا کرنے  کی صورت میں   جمع بین الصلاتین ممنوع ہے، بلکہ ظہر اور عصر کی  نماز میں سے  ہر ایک نماز کو الگ الگ اپنے وقت پر ادا کرے گا،  اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز میں  ہر حال میں  جمع بین الصلاتین  ضروری ہے،(یعنی مغرب اور عشاء دونوں نمازوں کو عشاء کے وقت ادا کرے گا) چاہے تنہا نماز ادا کرے یا امام کی اقتدا میں، نیز منی میں تمام نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر ادا کرے گا۔

2۔واضح  رہے کہ طواف زیارت کا وقت 10 ذی الحجہ سے  لے کر 12 ذی  الحجہ کے غروب آفتاب  تک ہے، لہذا طواف زیارت  13 ذی الحجہ کو کرنے کی صورت میں دم دینا لازم ہوگا، البتہ اگر کوئی شخص 12  ذی الحجہ کو عصر کے بعد غروب آفتاب سے پہلے پہلے طواف زیارت کرلے تو اس  صورت میں طواف کےنفل نمازِ مغرب کے بعد ادا کرے گا، عصر کے بعد مکروہ وقت ہونے کے سبب کسی بھی قسم کی نفل کی ادائیگی شرعاً صحیح نہیں ہے۔

3۔ہونٹ کی کھال  چبانے کی صورت میں کسی قسم کا دم لازم نہیں آتا۔

 

مبسوط سرخسی میں ہے:

"قال (ولا يجمع بين صلاتين في وقت إحداهما في حضر ولا في سفر) ما خلا عرفة ومزدلفة فإن الحاج يجمع بين الظهر والعصر بعرفات فيؤديهما في وقت الظهر وبين المغرب والعشاء بمزدلفة فيؤديها في وقت العشاء، عليه اتفق رواة نسك رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه فعله وفيما سوى هذين الموضعين لا يجمع بينهما وقتا عندنا."

(كتاب الصلاة،باب مواقيت الصلاة149/1،ط:دار المعرفة - بيروت، لبنان)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے: 

"وذهب الحنفية إلى أنه لا يجوز ذلك إلا في عرفة ومزدلفة، في اليوم التاسع من ذي الحجة، فيجمع الإمام بين الظهر والعصر جمع تقديم، بأن يصلي الظهر والعصر في وقت الظهر بعرفات، ويجمع بين المغرب والعشاء جمع تأخير بمزدلفة فيصلي المغرب والعشاء في وقت العشاء.واشترط أبو حنيفة لجواز هذا الجمع: أن يكون محرما بحج لا عمرة، وأن تكون هذه الصلاة بجماعة، وأن يكون الإمام في جمع عرفة هو السلطان أو نائبه."

(‌‌أوقات الصلاة،‌‌‌‌حكم الصلاة في غير وقتها،تأخير الصلاة بلا عذر،188/7،ط:دارالسلاسل - الكويت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يجمع بين الصلاتين في وقت واحد لا في السفر ولا في الحضر بعذر ما عدا عرفة والمزدلفة. كذا في المحيط."

(كتاب الصلاة،الباب الأول في مواقيت الصلاة وما يتصل بها،الفصل الثاني في بيان فضيلة الأوقات،52/1، ط:ماجدية)

اللباب فی شرح الكتاب میں ہے:

"ومن أخر الحلق حتى مضت أيام النحر فعليه دمٌ عند أبي حنيفة، وكذلك ‌لو ‌أخر ‌طواف ‌الزيارة عند أبي حنيفة رحمه الله."

(‌‌كتاب الحج،‌‌باب الجنايات،210/1، ط:المكتبة العلمية، بيروت - لبنان)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

 

"ومن أخر الحلق حتى مضت أيام النحر، فعليه دم عند أبي حنيفة، وكذا ‌لو ‌أخر ‌طواف ‌الزيارة عن أيام النحر، فعليه دم عنده."

(‌‌الباب الخامس: الحج والعمرة،‌‌الفصل الأول،‌‌المبحث الحادي عشر،‌‌ثالثا ـ الجناية التي توجب دما واحدا إما على سبيل التخيير أو الترتيب،2324/3، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وركعتي طواف) ظاهره ولو كان الطواف في ذلك الوقت المكروه ولم أره صريحا، ويدل عليه ما أخرجه الطحاوي في شرح الآثار عن معاذ ابن عفراء " أنه طاف بعد العصر أو بعد صلاة الصبح ولم يصل، فسئل عن ذلك فقال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس، وعن صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس» " ثم رأيته مصرحا به في الحلية وشرح اللباب."

(كتاب الصلوة،375/1، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"الجناية: هنا ما تكون حرمته بسبب الإحرام أو الحرم، وقد يجب بها دمان أو دم أو صوم أو صدقة .... قال ابن عابدين: (قوله بسبب الإحرام أو الحرم) حاصل الأول سبعة نظمها الشيخ قطب الدين بقوله:

محرم الإحرام يا من يدري … إزالة الشعر وقص الظفر

واللبس والوطء مع الدواعي … والطيب والدهن وصيد البر

زاد في البحر ثامنا وهو ترك واجب من واجبات الحج."

(كتاب الحج، باب الجنايات، 543/2، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں