بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے لیے الگ کی گئی رقم پر زکات کا حکم


سوال

 کیا فرماتے ہیں علماءِ  دین و مفتیانِ  شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بیٹیوں نے اپنی مرحومہ ماں کے حجِّ  بدل  کے لیے کچھ پیسے اکٹھے  کیے ہیں، ( وہ پیسے اسی  کے لیے خاص کرکے الگ رکھ  دیے گئے ہیں ) ، دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا اس پیسے پر  زکات واجب ہوگی یا نہیں؟ بحوالہ مدلل جواب سے نوازیں!

جواب

بصورتِ مسئولہ    جن بیٹیوں نے یہ رقم مختص کی ہے، (جب کہ مذکورہ رقم مرحومہ کی بیٹیوں کی ذاتی ملکیت تھی، اور انہوں نے والدہ کے حجِّ بدل کی نیت سے الگ کرکے رکھی ہے)  ان میں سے جس صاحبِ نصاب کی زکات کا  سال پورا  ہوجائے اس پر اپنی طرف سے اس مدّ  میں  (والدہ کی طرف سے حجِّ بدل کے لیے) جمع کردہ رقم   پر  زکات دینا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضاً في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول."

(كتاب الزكوة، ج:2 ،ص: 262، کتاب الزکاة، ط: ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"إذا کان لرجل مائتا درهم فلم یؤد زکاته سنتین یزكي السنة الأولی."

(كتاب الزكوة،ج:2،ص:07،ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109203216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں