بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے لیے چھٹی نہ ملے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر آفس سے حج کے لیے چھٹی نہ ملے ،تو پھر حج پر جانے کا کیا حکم ہے ؟جب کہ چھٹی جان بوجھ کرنے پر نوکری سے نکال دیتے ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ اگر حج ایک مرتبہ فرض ہو جائے ،تو  جب تک ادا نہ کرے  ذمہ میں باقی رہتا ہے، اگر چہ بعد میں حج کی استطاعت نہ رہے اور فقیر بن جائے تب بھی ذمہ  سے ساقط نہیں ہو تا ،نیز حج اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہوتاہے جس  کے پاس ضروریاتِ زندگی کے پورا کر لینے، نیز اہل وعیال کے واجب خرچے پورے کرنے کے بعد اس قدر زائد رقم ہو جس سے حج کےضروری اخراجات (وہاں کے قیام اور کھانے وغیرہ) اور  آنے جانے کا خرچ پورا ہوسکتا ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر حج سائل پر فرض ہو چکا ہے ،تو سب سے پہلے آفس والوں کو  حج سے متعلق شرعی مسئلہ کے بارے میں   سنجیدہ طریقہ سے بتلائے ،اور اس بناء پر چھٹی حاصل کر نے کی کوشش کرے اور  فرض حج کوادا کر ے ،اور اگر اس کے باوجود بھی آفس والے چھٹی نہیں دیتے ،تو پھر اپنے حالات کو دیکھے ،اگر کہیں اور جگہ پر  ملازمت مل سکتی ہے ،تو پھر کہیں اور ملازمت اختیار کرے ،اور حج  کا فریضہ ادا کرے ،اور اگر کہیں ملازمت نہیں مل سکتی اور اس کے بغیر گزارہ مشکل ہےتو  پھر ملازمت جاری رکھے ،اور ہر سال چھٹی کی کوشش کرے ،جیسے ہی چھٹی مل جائے ،حج کی ادائیگی کرے ۔

حدیث شریف میں ہے:

"تعجلوا الخروج إلى مكة فإن أحدكم لايدري ما يعرض له من مرض أو حاجة. الديلمي عن ابن عباس."

(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج: 5، ص: 16، رقم الحدیث: 11851، ط:  مؤسسة الرسالة)  

 "ہدایہ" میں ہے:

"الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا على الزاد والراحلة فاضلاً عن المسکن، وما لا بد منه، وعن نفقة عیاله إلى حین عوده، وكان الطریق آمناً ووصفه الوجوب."

(الهداية، كتاب الحج، (1/249) ط: مكتبة رحمانية، لاهور)

غنیہ الناسک میں ہے :

"وکذلك لو لم یحجّ حتی افتقر تقرّر وجوبه دیناً في ذمته بالاتفاق، ولایسقط عنه بالفقر."

(غنیة الناسك ص۳۳ ومثله في الهندیة وغیرها)

المبسوط للسرخسي " میں  ہے:

"قال:وإذا نفقت السائمة كلها بعد حولان الحول عليها سقطت الزكاة عنها…. بخلاف صدقة الفطر والحج فإن محل الوجوب هناك ذمته لا ماله وذمته باقية بعد هلاك المال."

(كتاب الزكوة ، باب زكوة الابل،ج:2،ص:174،ط:دار المعرفة بيروت)

فتح القدیر میں ہے:

"وشرط وجوبه: الإسلام، حتى لو ملك ما به الاستطاعة حال كفره ثم أسلم بعدما افتقر لا يجب عليه شيء بتلك الاستطاعة، بخلاف ‌ما ‌لو ‌ملكه مسلما فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر الحج في ذمته دينا عليه،والحرية والعقل والبلوغ والوقت أيضا، فلا يجب قبل أشهر الحج، حتى لو ملك ما به الاستطاعة قبلها كان في سعة من صرفها إلى غيره، وأفاد هذا قيدا في صيرورته دينا إذا افتقر، وهو أن يكون مالكا في أشهر الحج فلم يحج."

(كتاب الحج، ج:2، ص:409، ط:دارالفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

 "وقالوا: لو لم يحج حتى أتلف ماله وسعه أن يستقرض ويحج ولو غير قادر على وفائه ويرجى أن لا يؤاخذه الله بذلك أي لو ناوياً وفاء إذا قدر كما قيده في الظهيرية.
قوله:( وسعه أن يستقرض الخ ) أي جاز له ذلك وقيل يلزمه الاستقراض كما في لباب المناسك، قال منلا علي القاري في شرحه عليه وهو رواية عن أبي يوسف وضعفه ظاهر فإن تحمل حقوق الله تعالى أخف من ثقل حقوق العباد اه ، قلت: وهذا يرد على القول الأول أيضا إن كان المراد بقوله ولو غير قادر على وفائه أن يعلم أنه ليس له جهة وفاء أصلا أما لو علم أنه غير قادر في الحال وغلب على ظنه أنه لو اجتهد قدر على الوفاء فلا يرد ، والظاهر أن هذا هو المراد أخذا مما ذكره في الظهيرية أيضا في الزكاة حيث قال إن لم يكن عنده مال وأراد أن يستقرض لأداء الزكاة فإن كان في أكبر رأيه أنه إذا اجتهد بقضاء دينه قدر كان الأفضل أن يستقرض فإناستقرض وأدى ولم يقدر على قضائه حتى مات يرجى أن يقضي الله تبارك وتعالى دينه في الآخرة وإن كان أكبر رأيه أنه لو استقرض لا يقدر على قضائه كان الأفضل له عدمه اه ،وإذا كان هذا في الزكاة المتعلق بها حق الفقراء ففي الحج أولى."

(کتاب الحج ،ج:2، ص:257، ط؛سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما فرضيته) فالحج فريضة محكمة ثبتت فرضيتها بدلائل مقطوعة حتى يكفر جاحدها، وأن لايجب في العمر إلا مرة، كذا في محيط السرخسي، وهو فرض على الفور، وهو الأصح فلايباح له التأخير بعد الإمكان إلى العام الثاني، كذا في خزانة المفتين. فإذا أخره، وأدى بعد ذلك وقع أداء، كذا في البحر الرائق. وعند محمد - رحمه الله تعالى - يجب على التراخي والتعجيل أفضل، كذا في الخلاصة.والخلاف فيما إذا كان غالب ظنه السلامة أما إذا كان غالب ظنه الموت أما بسبب الهرم أو المرض فإنه يتضيق عليه الوجوب إجماعا كذا في الجوهرة النيرة وثمرة الخلاف تظهر في حق المأثم حتى يفسق وترد شهادته عند من يقول على الفور، ولو حج في آخر عمره فليس عليه الإثم بالإجماع، ولو مات، ولم يحج أثم بالإجماع، كذا في التبيين...بخلاف ما لو ملكه مسلمًا فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر الحج في ذمته دينًا عليه، كذا في فتح القدير."

(کتاب الحج، الباب الاول في تفسير الحج، ج:1 ،ص:216، ط:دارالفكر )

فتاوی محمودیہ میں  اسی طرح ایک سوال کے جواب میں  ہے:

"اگر مکان کی ضرورت حج سے پہلے ہی پیش آگئی اور اس  مجبوری کی وجہ سے مکان بنالیا گیا تو اس کے ذمہ حج فرض نہیں ہوا تھا،اگر وقتِ حج یعنی  جس وقت کہ لوگ آس پاس سے حج کے لیےجارہے تھے اس وقت تو مکان کی ضرورت  نہ تھی ، بل کہ بعد میں ضرورت پیش آئی اور اس میں روپیہ خرچ کرلیا تو اس کے ذمہ حج فرض ہوچکا تھا۔"

(کتاب الحج، ج:10، ص:290، ط :ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100994

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں