بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کی قربانی اپنے ملک میں کرنا


سوال

کیا حج کرنے والا صاحب نصاب حج کی قربانی بھی وہاں کرے  یا اپنے ملک میں کسی کو قربانی کے پیسے دے کر جاۓ تو بھی حج کی قربانی ہو جاۓ گی؟

جواب

حجِ قران یا حجِ تمتع کرنے کی صورت میں دمِ شکر کے طور پر ایک حصہ قربانی کرنا یا ایک دنبہ، یا بھیڑ، یا بکری حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہوتا ہے،لہذا صورتِ  مسئولہ میں حج کی قربانی (دم شکر ) کے  لیے اپنی ملک میں کسی کو پیسہ  دے کر قربانی کروانا صحیح نہیں  ،بصورتِ دیگرحرم میں قربانی نہ کرنےکی وجہ سے بدلہ میں  دم دینالازم ہوگا۔

ارشادالساری میں ہے :

"ويختص أي جوازذبحه بالمكان هوالحرم فلايجوز ذبحه في غيره أصلا."

(باب القران، فصل: في هدي القارن والمتمتع، ص: 369 ط: الإمدادية،مكة المكرمة)

وفیہ ایضاً:

"ولوذبح شيئامن الدماء الواجبة أي كدم القران والتمتع والنذر في الحج والعمرة أي مجتمعين أو منفردين خارج الحرم أي عن أرضه المحددة المعلومة من كل ناحية بالعلم، لم يسقط عنه أي ذالك الدم وعليه ذبح آخر بدلاً عما تقدم و هذا متفق علِه بِن أصحابنا."

(باب الجنايات وأنواعها، النوع الخامس: الجنايات في أفعال الحج، فصل في الجناية في الذبح والحلق ص: 506 ط: الإمدادية، مكة المكرمة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں