بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے لیے جمع شدہ رقم پر زکات کا حکم


سوال

میں ہر سال رمضان میں زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، اس سال میں رمضان سے پہلے حج کے لیے سرکاری اسکیم میں رقم جمع کروں گا،مجھے نہیں معلوم کہ    میرا نام منتخب نہ ہونے کی صورت میں  حکومت مجھے میرے پیسے کب واپس کرے گی؟ اس صورت میں کیا میں اس رمضان میں حکومت کو جمع کروائی گئی رقم پر زکوٰۃ ادا کروں یا نہیں؟ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نےحج کے لیے جو رقم حکومت کے پاس جمع کروائی ہے، اگرسائل کانام حج  کے لیےجانےوالوں میں منتخب نہیں ہوتاتوایسی صورت میں چوں کہ رمضان المبارک میں سال مکمل ہوجائے گا،اس لیے اِس صورت میں  سائل پر اس  سال کی زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوگی، اگر رمضان المبارک تک رقم واپس نہ ملی تو رقم واپس ہونے پر بھی زکات دے سکتے ہیں۔ بصورتِ  دیگر اگر سائل کانام حج کے لیےجانے والوں میں منتخب ہوجائے تو اس صورت  میں جمع شدہ رقم میں سے کچھ واپس مل جاتی ہے تواس پر زکوٰۃ واجب ہوگی باقی رقم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول."

(كتاب الزكاة، مطلب في زكاة ثمن المبيع وفاء، ج:2، ص:262، ط: سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌ومنها ‌الملك ‌التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج:1، ص:172، ط:رشيدية)

فتاویٰ محمودیہ  میں ہے:

سوال:ہم لوگ نصف رمضان تک زکوٰۃ نکال دیتے ہیں لیکن اس سال ہمارے والد صاحب رمضان سے قبل حج کو جارہے ہیں تو اس روپیہ کی بھی زکوٰۃ نکالنی ہوگی؟

الجواب حامدا و مصليا:

جورقم ولد صاحب لیکر حج کو جائیں گےاگراس پر سال پوراہوچکاہے،تو اس کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ نکالناواجب ہے،اگر سال پورا ہونے سےقبل وہ خرچ میں آجائےتو اس پر زکوٰۃ نہیں۔

(کتاب الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ،  سوال نمبر:4441،ج:  9،ص:  338،ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاویٰ مفتی محمود  میں ہے:

(س)کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ کاارادہ حج کرنےکاہے،بندہ کاسالہ سعودی عرب جدہ میں ملازم ہے،وہ یہاں پاکستان میں آگیاہے،اس نے مجھےکہاکہ میں اپنے ماتحت عملہ کو ٹیلیگراف کردیتاہوں،بندہ کےسامنےٹیلیگراف جدہ کردیا،میرے بہنوائی کےنام ویزہ روانہ کردیں،بندہ کےسالےنےکہااگرتیرا ویزہ آخری ہفتہ رمضان المبارک میں نہ آیا،تو میں آخری رمضان المبارک میں جدہ جاؤں گااور میں جاکر تیراویزہ روانہ کردوں گا،وہ شوال کے پہلے یادوسرےہفتےہی آجائےگا،اگر ان دونوں صورتوں میں ویزہ نہ آسکا،تو بندہ ویزہ کے بغیر حج پر نہیں جائےگا،بندہ نے مبلغ اکیس صد 2100روپیہ سالہ کو بطورقرضہ دیا ہوا ہے،اس نےکہا کہ یہ رقم وہاں سعودی عرب میں دےدوں گا،اس رقم کے علاوہ مبلغ چار ہزار روپیہ4000 نقد اور ہیں اور وہ زاد راہ سفر حج کاہے،اب جناب فرمائیں کہ ان دونوں رقومات کی زکوٰۃ معاف ہےیا دینی پڑی گی؟۔

(ج)اکیس صد2100جوآپ نےاپنےسالےکوبطور قرضہ کےدیاہواہے،اس پربھی زکوٰۃ واجب ہے،اگر ایک سال کےبعد یادو تین برس کے بعد وصول ہو تو اگراتنی مقدار میں وصول ہو جتنی پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہےتو ان سب برسوں کی زکوٰۃ دیناواجب ہےاوراگریکمشت نہ وصول ہو تو جب اس میں سےگیارہ تولہ چاندی کی قیمت وصول ہو تب اتنے کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے،اور گیارہ تولےچاندی کی قیمت بھی متفرق ہی ہوکر ملےتوجب بھی یہ مقدار پوری ہوجائے،اتنی مقدار کی زکوٰۃ ادا کرتے رہیں،اور جب دیوےتو سب برس کی دیں،(2)مبلغ چار ہزار 4000روپیہ نقد جوآپ نےبارادہ سفرحج جمع رکھےہوئےہیں،اگر ان پر ایک سال کاعرصہ گزرچکاہے،اوراپنی اصل ضرورتوں اور قرض سے بچے ہوئےہیں تو بلاشبہ ان پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔ 

(زیرِعنوان:قرضہ یا حج کے لیے جمع شدہ رقم پر زکوۃ کا حکم،  کتاب الزکوۃ،232/3،ط:اشتیاق اے مشتاق پریس، لاہور)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

سوال:زید نے اپنے بیٹوں کو یہ وصیت کی کہ میرے مال میں سے چار سوروپے سے میری طرف سے حج کرانا اورایک ہزار روپیہ  میں فقراء کو کھانا کھلانا،بعد مرنے زید کے بیٹوں نے ایک ہزار روپے میں کھاناکھلادیا تھا،لیکن حج اب تک ان چار سوروپے سے نہیں کرایا،ایک سال بھی گزرگیا،اب اس روپے کی زکوٰۃ اداکرنا فرض ہے یانہیں ؟اور چودہ سو روپے ثلث کل سے بھی کم ہے۔

جواب: اس روپے کی زکوٰۃ ادا کرنافرض ہے۔

(زیرِ عنوان:جورقم حج کےلیے دی اوراس پر سال گزرگیا،اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟، کتاب الزکاۃ، ج:6، ص:90، ط: دراالاشاعت اُردو بازار کراچی پاکستان)

فتاویٰ دارالعلوم زکریا میں ہے:

سوال: حج کی منظوری ہوئی اوروہ شخص نہ جائے تو حج کی اکثر رقم واپس ہوسکتی ہے تواب اس رقم کی زکوٰۃ اس پر ہے یا نہیں؟

الجواب:صورتِ مسئولہ میں رقم واپس ہونے پر زکوٰۃ فرض ہے۔

(زیرعنوان: حج کی منظوری کے بعد حج کو نہ جائے تورقم واپس ملنے پر زکوٰۃ کا حکم: کتاب الزکاۃ، ج:3، ص:121، ط: زمزم پبلشرز)

آپ کے مسائل اوراُن کے حل میں ہے:

ایک شخص کے پاس اپنی کمائی کی کچھ رقم تھی،انہوں نے حج کرنے کے ارادےسے درخواست دی اوررقم جمع کرائی،لیکن قرعہ اندازی میں ان کانام نہیں آیا،اورحکومت وقت کی جانب سے ان کی رقم واپس مل گئی،وہ شخص پھر آئندہ سال  حج کرنے کاارادہ رکھتا ہے اوردرخواست بھی دینے کا ارادہ ہے ،آپ یہ بتائیں کہ حج کرنے کےلیے جو رقم رکھی گئی ہے، اس پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے یا ایسی رقم سے کوئی زکوٰۃ کونکالی نہیں جائے گی،یا دوسری رقم کی طرح اس پر زکوٰۃ نکالی جائے گی؟

جواب: اس رقم پر زکوٰۃ واجب ہے۔

(زیرِ عنوان: حج کے لیے رکھی ہوئی رقم پر زکوٰۃ، کتاب الزکاۃ ، زکاۃ کا نصاب اورشرائط، ج:5، ص:111، ط:مکتبہ لُدھیانوی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں