بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے سفر کے دوران محرم کا انتقال ہوجائے تو عورت کیا کرے؟


سوال

حج کے سفر کے دوران عورت کے محرم کا انتقال ہو جائے تو عورت اپنے حج کے سلسلے میں کیا کرے گی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سفر حج کے دوران عورت کے محرم یا شوہر کا انتقال ہوجائے تو موجودہ دور کی پریشانی اور قانونی مشکلات کے پیش نظرچوں کہ فوراًوطن واپس لوٹنا یا وہاں ٹھہر کر عدت  گزارنا انتہائی دشوار ہے ،لہذا مذکورہ عورت محرم وغیرہ کے بغیر اپنے گروپ کے ساتھ حج مکمل  کرلے،بعدازاں وطن واپس آکرباقی ماندہ  عدت کے ایام گزارے ۔

سفر کے مسائل کے انسائیکلو پیڈیا میں ہے :

’’اگر عورت کے محرم یا شوہر کے ساتھ مکہ مکرمہ پہونچنے کے بعد محرم یا شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس دور کی مشکلات ، پریشانی اور مجبوری کی وجہ سے محرم وغیرہ کے بغیر بھی حج کرلے کیوں کہ یہ معذور ہے ۔‘‘

(ج:2، ص: 250 ،ط: بیت العمار )

فتاوی رحیمہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے :

’’حکومت کی جانب سے قانوں سخت ہوگئے ہیں اور ناقابل برداشت دشواریوں کا سامنا ہے ،اس لیے کتاب "زبدۃ المناسک مع عمدۃ المناسک " میں لکھا ہے کہ :"اگرچہ مکہ معظمہ ہی میں ہوتو عرفات پر نہ جائے بلکہ عمرہ کے افعال بجالا کر حلال ہو اور چاہے تو فوت ہوتے وقت وقوف عرفہ کے حلال ہوجائے ، اس مسئلہ میں بہت ہی مشکل پیش آوے گی تو یہ بھی اسی طرح معذور سمجھی جاوےجیسے بوادی ( جنگل ) وغیرہ جہاں اقامت مشکل ہوتو مکہ مکرمہ کو چلی جانے کا جواز ہے تو اب اس حالت میں عرفات پر حج کرنے کوجائے تو عذر ہوسکتاہے ، ورنہ اس کو نہایت مشکل پیش آوے گی ، اگر افعال عمرہ بجالاکر حلال ہوگئی تو پھر حج کی قضاء کرنی لازم ہوگی پھر اس کے لیے وہاں رہنا یا واپس آنا نہایت دشوار ہوگا۔‘‘

(کتاب الحج، ج: 8، ص: 61/ 62،ط: دارالاشاعت )

بدائع الصنائع میں ہے:

"والثاني: أن لا تكون معتدة عن طلاق أو وفاة؛ لأن الله تعالى نهى المعتدات بقوله عز وجل: {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن} وروي عن عبد الله بن عمر - رضي الله عنه - أنه رد المعتدات من ذي الحليفة. وروي عن عبد الله بن مسعود - رضي الله عنه - أنه ردهن من الجحفة.

ولأن الحج يمكن أداؤه في وقت آخر فأما العدة فإنها إنما يجب قضاؤها في هذا الوقت خاصة فكان الجمع بين الأمرين أولى، وإن لزمتها بعد الخروج إلى السفر ... إن كانت بائنا، أو كانت معتدة عن وفاة ... وإن كان إلى مكة أقل من مدة سفر، وإلى منزلها مدة سفر مضت إلى مكة؛ لأنها لا تحتاج إلى المحرم في أقل من مدة السفر، وإن كان من الجانبين أقل من مدة السفر فهي بالخيار إن شاءت مضت، وإن شاءت رجعت إلى منزلها فإن كان من الجانبين مدة سفر فإن كانت في المصر، فليس لها أن تخرج حتى تنقضي عدتها في قول أبي حنيفة، وإن وجدت محرما، وعند أبي يوسف، ومحمد لها أن تخرج إذا وجدت محرما، وليس لها أن تخرج بلا محرم بلا خلاف وإن كان ذلك في المفازة أو في بعض القرى بحيث لا تأمن على نفسها، ومالها فلها أن تمضي فتدخل موضع الأمن ثم لا تخرج منه في قول أبي حنيفة سواء وجدت محرما أو لا، وعندهما: تخرج إذا وجدت محرما."

(كتاب الحج، فصل شرائط فرضية الحج، ج:2، ص:124، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو وجبت العدة في الطريق في مصر من الأمصار وبينها وبين مكة مسيرة سفر لا تخرج من ذلك المصر ما لم تنقض عدتها، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الحج، الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه، ج:1، ص:216، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"أما الواقعة في السفر فإن كان الطلاق رجعيا لا يفارقها زوجها أو بائنا، فإن كان إلى كل من بلدها ومكة أقل من مدة السفر تخيرت أو إلى أحدهما سفر دون الآخر تعين أن تصير إلى الآخر أو كل منهما سفر، فإن كانت في مصر قرت فيه إلى أن تنقضي عدتها، ولا تخرج وإن وجدت محرما خلافا لهما وإن كانت في قرية أو مفازة لا تأمن على نفسها فلها أن تمضي إلى موضع أمن، ولا تخرج منه حتى تمضي عدتها وإن وجدت محرما عنده خلافا لهما كذا في فتح القدير."

(كتاب الحج، ج:2، ص:419، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144407101691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں