بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج فرض ہونے کے بعد بالغ اولاد کے خراب ہونے کے اندیشہ سے حج کرنے کا حکم


سوال

 مفتی صا حب میں اور میر ے شو ہر عمرہ یا حج پر جا نے کا ارا دہ کر تے ہیں ، لیکن پھر یہ سو چ کر بیٹھ جا تے ہیں کہ ہما رے پیچھے بچے کیسے رہیں گے ، مطلب ہما رے بچو ں کی عمر یں 19 ، 16 ، 17 ، 4 ، 18 سال کی ہیں،  اور کسی کی بھی شا دی نہیں ہو ئی ، ہما ر ے میکے اور سسرال میں با لکل پر دے کا ما حول نہیں ہے ، میں اللہ کے کرم سے شرعی پر دہ کر تی ہو ں ،لیکن بچیا ں اور لڑکے نہیں کر تے ، میرے پر دہ کر نے کی و جہ سے ہما رے گھر میں ا حتیا ط کی جا تی ہے ، میری و جہ سے ، لیکن جہا ں میں نہیں ہو تی و ہا ں کو ئی احتیا ط نہیں کر تا ، خوا ہ وہ خا ندان کے ہو ں یا میرے اپنے بچے پھر سب ایک ہی جگہ اٹھتے بیٹھتے ہیں ، اور جہا ں میں ہو تی ہو ں ، و ہا ں مکمل پر دے کا خیال رکھا جا تا ، اسی و جہ سے الجھن ہو تی ہے کہ بہت مشکل سے یہ ما حول بنا ہے،  اگر میں گئی تو پھر دو بارہ پہلے والا ما حو ل نہ ہو جا ئے ،مجھے کیا کر نا چا ہئے ؟ ایک حدیث نظر سے گزری ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کو ئی حج پر جا نے کی استطا عت رکھتا ہو اور نہ جائے تو اللہ تعا لی کو بھی اس کی پر وا نہیں کہ وہ یہو دی ہو کرمرے یا نصرانی۔

2۔ـ ایک با ت اور  پوچھنی ہے  وہ یہ کہ اگر حج کا مکمل خر چ نہ ہو تو کیا ہما رے پاس جو زیور ہو اس کو بیچ کر جا نا چا ہیے ـ ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ  اگر حج کرنے  کی استطاعت رکھتی ہےیعنی سفرِ حج کی آمد و رفت کے اخراجات  کے ساتھ ساتھ  محرم یا شوہر ساتھ جانے کے لیے تیار ہو، اور شوہر یا  محرم  اپنے اخراجات  برداشت کرسکتے ہیں تو بہتر ورنہ سائلہ اگر ان کے اخراجات بھی برداشت کرسکتی ہے ،تو چوں کہ ان  بچے  بالغ ہے، لہذا کسی بڑے(اپنے والد، والدہ، بھائی بہن) کی سرپرستی میں چھوڑ کر حج کے لیے  جائے، اس عذر کی وجہ سے حج محروم رہنا درست نہیں ہے۔

2۔جی ہاں  اگر سائلہ کی ملکیت میں زیور ہے، اور اس کو بیچ کر حج کا انتظام کرسکتی ہے، تو زیور بیچ كر حج کرنا   ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

شروع في بيان شروط الحج وجعلها في اللباب أربعة أنواع...الأول: شروط الوجوب وهي التي إذا وجدت بتمامها وجب الحج وإلا فلا وهي سبعة: الإسلام، والعلم بالوجوب لمن في دار الحرب والبلوغ والعقل والحرية والاستطاعة والوقت أي القدرة في أشهر الحج أو في وقت خروج أهل بلده على ما يأتي.والنوع الثاني: شروط الأداء وهي التي إن وجدت بتمامها مع شروط الوجوب، وجب أداؤه بنفسه، وإن فقد بعضها مع تحقق شروط الوجوب، فلا يجب الأداء بل عليه الإحجاج أو الإيصاء عند الموت وهي خمسة: سلامة البدن، وأمن الطريق وعدم الحبس، والمحرم أو الزوج للمرأة وعدم العدة لها.النوع الثالث: شرائط صحة الأداء وهي تسعة: الإسلام والإحرام، والزمان، والمكان، والتمييز، والعقل ومباشرة الأفعال إلا بعذر وعدم الجماع والأداء من عام الإحرام.النوع الرابع: شرائط وقوع الحج عن الفرض وهي تسعة أيضا: الإسلام، وبقاؤه إلى الموت، والعقل، والحرية والبلوغ والأداء بنفسه إن قدر، وعدم نية النفل، وعدم الإفساد، وعدم النية عن الغير."

(كتاب الحج، باب سنن و أداب الحج، ج:2، ص:458، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما فرضيته) فالحج فريضة محكمة ثبتت فرضيتها بدلائل مقطوعة حتى يكفر جاحدها، وأن لايجب في العمر إلا مرة، كذا في محيط السرخسي، وهو فرض على الفور، وهو الأصح فلايباح له التأخير بعد الإمكان إلى العام الثاني، كذا في خزانة المفتين. فإذا أخره، وأدى بعد ذلك وقع أداء، كذا في البحر الرائق. وعند محمد - رحمه الله تعالى - يجب على التراخي والتعجيل أفضل، كذا في الخلاصة.والخلاف فيما إذا كان غالب ظنه السلامة أما إذا كان غالب ظنه الموت أما بسبب الهرم أو المرض فإنه يتضيق عليه الوجوب إجماعا كذا في الجوهرة النيرة وثمرة الخلاف تظهر في حق المأثم حتى يفسق وترد شهادته عند من يقول على الفور، ولو حج في آخر عمره فليس عليه الإثم بالإجماع، ولو مات، ولم يحج أثم بالإجماع، كذا في التبيين ...بخلاف ما لو ملكه مسلمًا فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر الحج في ذمته دينًا عليه، كذا في فتح القدير."

(کتاب الحج، الباب الاول في تفسير الحج، ج:1 ،ص:216، ط:دارالفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه كذا في محيط السرخسي ويعتبر في نفقته ونفقة عياله الوسط من غير تبذير، ولا تقتير كذا في التبيين والعيال من تلزمه نفقته كذا في البحر الرائق ولا يترك نفقة لما بعد إيابه في ظاهر الرواية كذا في التبيين."

(كتاب المناسك ، الباب الاول في تفسير الحج، ج:1، ص:217،ط:دارالفكر )

    فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها ‌المحرم ‌للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع."

(کتاب المناسک، الباب الاول، ج:1، ص: 219، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں