بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حجِ بدل میں قربانی کا حکم


سوال

کیا حج بدل میں قربانی لازم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں حجِ بدل کرنے والے کے لیے اصل حکم تو یہ ہے کہ وہ حجِ افراد کرے، اس صورت میں اگرصاحبِ نصاب  اور مقیم ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی،وگرنہ نہیں،اور  اگر حجِ بدل میں حجِ قران یا تمتع کرنا چاہے ،تو اس کے لیے حجِ بدل کرانے والے کی اجازت ضروری ہے ،دمِ شکر کا خرچہ وہ دے دے تو ٹھیک،لیکن  اگر وہ نہ دے تو حج کرنے والا اپنی طرف سے ادا کرے۔

نوٹ: حجِ بدل کرنے والا جیسے افراد کر سکتاہے ایسے ہی آمر کی اجازت سےقران یاتمتع بھی کر سکتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ودم الإحصار) لا غير (على الآمر في ماله ولو ميتا) قيل من الثلث، وقيل من الكل. ثم إن فاته لتقصير منه ضمن، وإن بآفة سماوية لا. (ودم القران) والتمتع (والجناية على الحاج) إن أذن له الآمر بالقران والتمتع وإلا فيصير مخالفا فيضمن (وضمن النفقة إن جامع قبل وقوفه) فيعيد بمال نفسه (وإن بعده فلا) لحصول المقصود."

(كتاب الحج، ج: 2، ص: 294، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويجب الدم على المتمتع شكراً لما أنعم الله تعالى عليه بتيسير الجمع بين العبادتين، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الحج، الباب السابع في القران و التمتع، 239/1، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والذبح له أفضل ویجب علی القارن والمتمتع، وأما الأضحیة فإن کان مسافراً فلا یجب علیه وإلا کالمکي فتجب، کما في البحر".

 (کتاب الحج، مطلب في رمي جمرۃ العقبة، 534/3، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں