بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حائضہ عورت کا ترجمہ قرآن کریم کا درس دینا


سوال

کیا حائضہ عورت   ترجمہ قرآن کریم  کا درس دے   سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن پاک کے ترجمہ کی دو قسمیں ہیں، ایک تحت اللفظ  (لفظی)  ترجمہ اور  دوسرا   مرادی ترجمہ (مفہوم)،  قرآنِ پاک کا ترجمہ اگر  بالکل تحت اللفظ ہو تو فقہاءِ کرام کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک کے لفظی ترجمہ کے وہی آداب ہیں جو عربی الفاظ کے ہیں، لہٰذا عورت کو ایامِ حیض میں نہ تو اس لفظی  ترجمے کے   نسخے کو چھونا چاہیے اور  نہ ہی اس کا تلفظ (زبان سے ادا) کرنا چاہیے، البتہ تلفظ کیے بغیر صرف مطالعہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اور  اگر ترجمہ لفظی نہیں ہے، بلکہ مفہومی  ترجمہ  ہے تو پھر عورت کے لیے ایامِ حیض میں بھی اس کو  پڑھنا، پڑھانا  اور  مطالعہ کرنا سب  جائز ہے۔

 لیکن چوں کہ قرآن پاک کا ترجمہ قرآنِ پاک کے نسخے (مصحف) کے ساتھ ہی ہوتا ہے، اس لیے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہوگا کہ ایامِ حیض میں قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھتے یا پڑھاتے  وقت قرآنِ پاک پر براہِ راست ہاتھ نہ لگے، بلکہ اگر ہاتھ لگانے کی نوبت آئے توجسم سے الگ  کسی کپڑے وغیرہ سے چھونا چاہیے۔ نیز قرآنِ کریم کی تلاوت بھی اس حالت میں منع ہے، اس لیے  قرآن کریم  کا مرادی مفہوم بیان کرتے ہوئے  آیات کی تلاوت کی اجازت نہیں ہوگی۔  

لہذا حائضہ عورت کا ان باتوں کا خیال رکھتے ہوۓ قرآن کریم کا درس دینا جائز ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وإذا حاضت المعلّمة فينبغي لها أن تعلّم الصبيان كلمة كلمة وتقطع بين الكلمتين، ولايكره لها التهجي بالقرآن. كذا في المحيط".

(الفصل الرّابع في أحكام الحيض والنّفاس والاستحاضة،الأحكام الّتي يشترك فيها الحيض والنّفاس ثمانية، ج: ١، ص: ٣٨، ط: دارالفکر)

 

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’( وقراءة قرآن ) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً، كما قدمناه وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور ... (ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف؛ فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه، وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر، أي والصحيح المنع كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية كما قدمناه عن القهستاني وغيره‘‘

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب الحيض، ج: 1، ص: 293، ط: سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ولو كان القرآن مكتوبًا بالفارسية يكره لهم مسّه عند أبي حنيفة، وكذا عندهما على الصحيح، هكذا في الخلاصة."

(كتاب الطهارة، الباب السادس في الدماء المختصة بالنساء، الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة، ج: 1، ص:  39، ط: دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوبًا بالفارسية في الأصح (وإلا بغلافه) المنفصل كما مر (وكذا) يمنع (حمله) كلوح وورق فيه آية.

(قوله: ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه. وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم كما في البحر: أي والصحيح المنع كما نذكره ومثل القرآن سائر الكتب السماوية كما قدمناه عن القهستاني وغيره وفي التفسير والكتب الشرعية خلاف مر (قوله: إلا بغلافه المنفصل) أي كالجراب والخريطة دون المتصل كالجلد المشرز هو الصحيح وعليه الفتوى؛ لأن الجلد تبع له سراج، وقدمنا أن الخريطة الكيس. أقول: ومثلها صندوق الربعة، وهل مثلها كرسي المصحف إذا سمر به؟ يراجع (قوله: وكذا يمنع حمله) تبع فيه صاحب البحر حيث ذكره عند تعداد أحكام الحيض. وفيه أنه إن أراد به حمله استقلالا أغنى عنه ذكر المس، أو تبعا فلا يمنع منه. ففي الحلية عن المحيط: لو كان المصحف في صندوق فلا بأس للجنب أن يحمله، وفيها قالوا: لا بأس بأن يحمل خرجا فيه مصحف. وقال بعضهم: يكره. أخذ زمام الإبل التي عليها المصحف. قال المحبوبي: ولكنه بعيد، وهو كما قال. اهـ. أقول: وقد يقال يمكن تصوير الحمل بدون مس وتبعية كحمله مربوطا بخيط مثلا، لكن الظاهر جوازه تأمل (قوله: فيه آية) قيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دون الآية لم يكره مسه كما في القهستاني ح."

 (‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب الحيض، ج: 1، ص: 292، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں