بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حائضہ کے لئے قرآن پڑھنا/ قرآن پڑھانا/ قرآن لکھنے کا حکم


سوال

حیض کی حالت میں عورت کا قرآن پاک کو چھونا اور پڑھنا کیسا ہے؟ اگر کوئی طالب علم ہو تجوید سیکھ رہی ہوں کیا وہ قرآن پاک کو دیکھ کے پڑھ سکتی ہے سنا سکتی ہے اگر کو ئی بچی حفظ کر رہی ہوں کیا اس کے لیے اجازت ہے ؟کیا اس حالت میں ہم قرآں پاک کی آیات کو لکھ سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں حیض کے دوران عورت کے لیے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا یا قرآنِ کریم کو براہِ راست بغیر غلاف کے چھونا جائز نہیں ہے۔

لہذا مذکورہ پڑھنے والی طالبہ کے لیے حیض کے ایام میں تعلیمی ضرورت کی وجہ سے  کلمہ کلمہ کرکے قرآن پڑھنے کی گنجائش ہے، مثلاً   لفظ لفظ الگ الگ کرکے پڑھے، جیسے: الحمد ...   للہ ... رب ... العالمین، اور مخصوص ایام میں خواتین کے لیے قرآن کریم کو ہجے کرکے پڑھنا جائز ہے، اسی طرح خیالی طور پر دل میں پڑھنے کی اجازت ہے،البتہ مکمل آیت کا پڑھنا جائز نہیں۔

نیز دورانِ حیض قرآنی آیت کو لکھنا بھی ممنوع ہے۔

خیرالفتاویٰ میں ہے:

"سوال:ایک بالغہ لڑکی ہے اور طالب علم ہے قرآن پاک حفظ کرتی ہے اگر وہ ایام حیض میں تعلیم کی چھٹی کرے تو تعلیم میں کافی نقص واقع ہوتا ہے۔ کیا وہ ان دنوں میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہے یا نہیں۔ شریعت کی رو سے گنجائش ہے یا نہیں ؟ بینوا تو جروا۔

الجواب: مذکوره طالبہ ان ایام میں ایک ایک کلمہ کرکے پڑھ سکتی ہے۔" فقط والله اعلم

أحقر محمد انور عفا الله عنه

مفتی جامعه خير المدارس ملتان ۱۴۰۰/۲/۹

(کتاب الطہارۃ، حائضہ قرآن حکیم كَلِمَةٌ كَلِمَةً پڑھ سکتی ہے، ج:2، ص:140، ط:مکتبہ امدادیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) يحرم به (تلاوة القرآن) ولو دون آية على المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء أو افتتاح أمر أو التعليم ولقن كلمة كلمة حل في الأصح... (ومسه) مستدرك بما بعده، وهو وما قبله ساقط من نسخ الشرح، وكأنه لأنه ذكره في الحيض...

(قوله: ومسه) أي مس القرآن وكذا سائر الكتب السماوية. قال الشيخ إسماعيل: وفي المبتغى: ولا يجوز مس التوراة والإنجيل والزبور وكتب التفسير. اهـ. وبه علم أنه لا يجوز مس القرآن المنسوخ تلاوة وإن لم يسم قرآنا متعبدا بتلاوته، خلافا لما بحثه الرملي، فإن التوراة ونحوها مما نسخ تلاوته وحكمه معا فافهم".

(کتاب الطهارۃ، سنن الغسل، ج:1، ص:172، ط:ایچ ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ولا يكره للجنب والحائض والنفساء النظر في المصحف. هكذا في الجوهرة النيرة ويكره للجنب والحائض أن يكتبا الكتاب الذي في بعض سطوره آية من القرآن وإن كانا لا يقرآن القرآن والجنب لا يكتب القرآن وإن كانت الصحيفة على الأرض ولا يضع يده عليها وإن كان ما دون الآية وقال محمد أحب إلي أن لا يكتب وبه أخذ مشايخ بخارى. هكذا في الذخيرة".

(کتاب الطهارۃ، الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس والاستحاضة، ج:1، ص:39، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں