بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حائضہ کا بغیر احرام میقات سے گزرنے کا حکم


سوال

 میں عمرہ کرنے گئی تو حائضہ تھی، پاکستان سے جدہ  ایئرپورٹ پر جاتے ہوئے نیت نہیں کی، پھر مکہ میں پاک ہونے کے بعد مسجد جعرانہ سے احرام باندھ کر عمرہ کیا تو کیا مجھ پر میقات سے بغیر احرام کے گزرنے پر دم لازم ہے؟ اور اگر ہے تو کیا؟ اور وہ حرم میں دینا ہو گا یا کہیں بھی دے دوں ؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  سائلہ بغیر احرام کے  میقات سے گزری ہے اور اس کے بعد کسی میقات سے احرام نہیں باندھا بلکہ مسجد جعرانہ سے عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا ہے تو سائلہ پر میقات سے بغیر احرام گزرنے کی وجہ سے ایک دم(بکری ،دنبہ) حدود حرم میں  دینا لازم ہوگا ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وقد تجب کما إذا اجاوز المیقات بلا إحرام(قوله کما إذا جاوز المیقات بلا إحرام) أی فإنه یجب علیه أن یعود إلی المیقات ویلبی منه، وکذا یجب علیه قبل المجاوزۃ، قال فی الهدایة: ثم الآفاقی إذا انتهی إلی المواقیت علی قصد دخول مکة علیه أن یحرم قصد الحج أو العمرۃ عندنا أو لم یقصد لقوله - صلی اللہ علیه وسلم - لا یجاوز أحد المیقات إلا محرما ولو لتجارۃ ولأن وجوب الإحرام لتعظیم هذہ البقعة الشریفة، فیستوی فیه التاجر والمعتمر وغیرهما".

( کتاب الحج،ج:2،ص: 455 ، سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"ولا يجوز للإنسان ‌أن ‌يجاوز ‌الميقات إلا محرما بحج أو عمرة، وإلا وجب عليه دم أو العودة إليه".

(المطلب الثانی میقات الحج والعمرۃ،ج:3،ص:2125،دارالفکر)

البحرا لرائق میں ہے :

"وأطلق في التصدق والصوم فأفاد أن له التصدق في غير الحرم، وفيه على غير أهله. قال: في المحيط والتصدق على فقراء مكة أفضل، وإنما لم يتقيد بالحرم لإطلاق النص بخلاف الذبح".

(کتاب الحج ،باب الجنایات فی الحج ،ج:3،ص:15،دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں