بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض سے پاکی کے بعد اگر اتنا وقت ہو کہ غسل کر کے تکبیر تحریمہ کہہ سکے تو وہ نماز پڑھنا فرض ہے


سوال

حیض اگر عصر کے وقت شروع ہوا تو عادت کے ایام کے بعد نماز عصر سے ہی شروع ہوگی؟ اگر ظہر کے وقت میں غسل کر لیا تو کیا ظہر بھی پڑھی  جائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ حیض کا خون بند ہو جانے کے بعد جس نماز کا وقت ہو اور حائضہ کے پاس اتنا وقت ہو کہ وہ غسل کر کے تکبیرِ تحریمہ کہہ سکے تو اس پر اس وقت کی نماز فرض ہو جاتی ہے، وقت کے اندر پڑھ لی تو ٹھیک نہیں تو وقت نکلنے کے بعد قضاء کرنا ضروری ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرایامِ عادت کےآخری دن کی ظہر میں پاکی حاصل ہو جائے یعنی خون آنا بند ہوجائے تو ظہر کی نماز کا وقت نکلنے سے پہلے پہلے غسل کرکے نماز پڑھنا ضروری ہے، عصر کا انتظار کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( أو يمضي عليها زمن يسع الغسل ) ولبس الثياب ( والتحريمة ) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها حتى لو طهرت في وقت العيد لا بد أن يمضي وقت الظهر كما في السراج وهل تعتبر التحريمة في الصوم الأصح لا وهي من الطهر مطلقا وكذا الغسل لو لأكثره وإلا فمن الحيض فتقضي إن بقي بعد الغسل والتحريمة ولو لعشرة فقدر التحريمة فقط لئلاتزيد أيامه على عشرة فليحفظ ( و ) وطؤها ( يكفر مستحله ) كما جزم به غير واحد".

(باب الحيض، ج: 1، ص: 295، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

" (قوله: ولو لعشرة الخ) أي ولو انقطع لعشرة فتقضي الصلاة إن بقي قدر التحريمة فقط، و الحاصل أن زمن الغسل من الحيض لو انقطع لأقله لأنها إنما تطهر بعد الغسل فإذا أدركت من آخر الوقت قدر ما يسع الغسل فقط لم يجب عليها قضاء تلك الصلاة لأنها لم تخرج من الحيض في الوقت بخلاف ما إذا كان يسع التحريمة أيضًا؛ لأن التحريمة من الطهر فيجب القضاء".

(باب الحيض، ج: 1، ص: 297، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں