بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کی حالت میں طلاق دینے اور رجوع کرنے کا حکم


سوال

میرے شوہر نے مجھے حیض کی حالت میں غصے میں دو طلاقیں ایک  ساتھ دے دی ہیں، وہ اب بے حد شرمندہ ہے، ہم دونوں ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں، میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ حیض کی حالت میں طلاق ہوجاتی ہے؟ میرا اب اس کے ساتھ رہنا جائز ہے یا نہیں؟ میں بہت پریشان ہوں، براہ مہربانی مجھے کوئی حل بتائیں۔

 

جواب

اگر کوئی حالتِ حیض میں طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ وہ حدیث کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے  گناہ گار ہوگا،  حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے، فقہ حنفی میں اس کو ’’طلاقِ بدعی‘‘  کہا جاتا ہے، یعنی وہ طلاق جو سنت کے خلاف ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب لاعلمی میں اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی تھی تو  آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رجوع کر لیں اور پھر اگر چاہیں تو دوبارہ طہر کی حالت میں طلاق دیں،  رجوع کا حکم دینے سے معلوم ہوا کہ حالتِ حیض میں اگرچہ طلاق دیناجائز نہیں، لیکن اگر طلاق دے دی تو طلاق بہرحال واقع ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایک یا دو طلاقِ رجعی دی ہوں تو گناہ کی تلافی کے لیے رجوع کرنا چاہیے۔ اور اگر رجوع نہیں کیا تو جس حیض میں طلاق دی گئی ہے وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا، اس کے بعد کامل تین حیض عدت ہوں گے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ کے شوہر نے آپ کو دو بار لفظ طلاق کہہ کر طلاق دی ہے تو آپ کے اوپر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں، اب آپ کے شوہر کو  چاہیے کہ عدت کے اندر اندر آپ سے رجوع کرلیں، رجوع کرنے کی صورت میں نکاح برقرار رہے گا، دوبارہ نئے سرے سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر شوہر عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کرتا ہے تو  عدت پوری ہوتے ہی   نکاح ٹوٹ جائے گا،پھر اگر آپ  دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا پڑے گا، البتہ آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہ جائے گا۔

رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں، یہ رجوعِ قولی کہلاتا ہے، یا شوہر بیوی کے ساتھ زوجین والے تعلقات قائم کرلے ، یہ رجوع فعلی کہلاتا ہے، لیکن رجوعِ  فعلی کرنے کو  (یعنی زبان سے رجوع کیے بغیر، میاں بیوی کا تعلق قائم کرنے کو) فقہاء نے مکروہ  قرار  دیا ہے، حیض کے دوران تو ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز ہی نہیں ہے۔

اگر آپ کے شوہر نے طلاق کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کیا ہو تو وہ بتاکر حکم معلوم  کرلیجیے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 232):

"(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال: والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد (وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعاً للمعصية.

(قوله: وتجب رجعتها) أي الموطوءة المطلقة في الحيض (قوله: على الأصح) مقابله قول القدوري: إنها مستحبة ؛ لأن المعصية وقعت فتعذر ارتفاعها، ووجه الأصح قوله صلى الله عليه وسلم لعمر في حديث ابن عمر في الصحيحين: «مر ابنك فليراجعها»، حين طلّقها في حالة الحيض، فإنّه يشتمل على وجوبين: صريح وهو الوجوب على عمر أن يأمر، وضمني وهو ما يتعلق بابنه عند توجيه الصيغة إليه، فإن عمر نائب فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم  فهو كالمبلغ، وتعذر ارتفاع المعصية لا يصلح صارفاً للصيغة عن الوجوب لجواز إيجاب رفع أثرها وهو العدة وتطويلها ؛ إذ بقاء الشيء بقاء ما هو أثره من وجه فلا تترك الحقيقة، وتمامه في الفتح. (قوله: رفعاً للمعصية) بالراء، وهي أولى من نسخة الدال، ط أي لأن الدفع بالدال لما لم يقع والرفع بالراء للواقع والمعصية هنا وقعت، والمراد رفع أثرها وهو العدة وتطويلها كما علمت؛ لأن رفع الطلاق بعد وقوعه غير ممكن".

الفتاوى الهندية (1 / 527):

"إذا طلق امرأته في حالة الحيض كان عليها الاعتداد بثلاث حيض كوامل ولاتحتسب هذه الحيضة من العدة، كذا في الظهيرية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں