بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کی حالت میں تین طلاقیں دینے کا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی زوجہ کوگھر میں جھگڑے کی بناپر حیض کی حالت میں تین طلاقیں دی ہیں، مثلاً( میں تمھیں طلاق دیتا ہوں،میں تمھیں طلاق دیتا ہوں ،میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔شریعت کے مطابق اس کا فتویٰ دیا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی حالتِ حیض میں طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے، اگرچہ وہ حدیث کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے  گناہ گار ہوگا،  حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے، فقہ حنفی میں اس کو ’’طلاقِ بدعی‘‘  کہا جاتا ہے، یعنی وہ طلاق جو سنت کے خلاف ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جب لاعلمی میں اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی تھی تو  آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ رجوع کر لیں اور پھر اگر چاہیں تو دوبارہ طہر کی حالت میں طلاق دیں،  رجوع کا حکم دینے سے معلوم ہوا کہ حالتِ حیض میں اگرچہ طلاق دیناجائز نہیں، لیکن اگر طلاق دے دی تو طلاق بہرحال واقع ہوجاتی ہے۔

نیز ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینا خلافِ سنت ہے، ایسا کرنے والا سخت گناہ  گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح تین طلاقیں دے دے تو قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمولِ ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ،  حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول  قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ  کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، میاں بیوی  کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  اب نہ تو رجوع کرنا جائز ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز ہے، بیوی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،  دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگر ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد (لا رجعة فيه، أو واحدة في طهر وطئت فيه، أو) واحدة في (حيض موطوءة) لو قال: والبدعي ما خالفهما لكان أوجز وأفيد (وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعاً للمعصية.

(قوله: وتجب رجعتها) أي الموطوءة المطلقة في الحيض (قوله: على الأصح) مقابله قول القدوري: إنها مستحبة ؛ لأن المعصية وقعت فتعذر ارتفاعها، ووجه الأصح قوله صلى الله عليه وسلم لعمر في حديث ابن عمر في الصحيحين: «مر ابنك فليراجعها»، حين طلّقها في حالة الحيض، فإنّه يشتمل على وجوبين: صريح وهو الوجوب على عمر أن يأمر، وضمني وهو ما يتعلق بابنه عند توجيه الصيغة إليه، فإن عمر نائب فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم  فهو كالمبلغ، وتعذر ارتفاع المعصية لا يصلح صارفاً للصيغة عن الوجوب لجواز إيجاب رفع أثرها وهو العدة وتطويلها ؛ إذ بقاء الشيء بقاء ما هو أثره من وجه فلا تترك الحقيقة، وتمامه في الفتح. (قوله: رفعاً للمعصية) بالراء، وهي أولى من نسخة الدال، ط أي لأن الدفع بالدال لما لم يقع والرفع بالراء للواقع والمعصية هنا وقعت، والمراد رفع أثرها وهو العدة وتطويلها كما علمت؛ لأن رفع الطلاق بعد وقوعه غير ممكن".

(‌‌كتاب الطلاق،ركن الطلاق،٢٣٢/٣،ط : دار الفكر)

فتاویٰ شامی  میں ہے:

 "و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(كتاب الطلاق ٢٣٣/٣،ط : دارالفكر )

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا" .

(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ٣٤/٩/١، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں