بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کی حالت میں طواف کرنے کا حکم


سوال

ميں نے عمرہ کر لیا تھا ، پھرکچھ روز بعد میں حیض میں تھی اور اس کے دوسرے دن مجھے مدینہ جانا تھا،   مجھے یہ بات معلوم ہی نہیں تھی کے حالت حیض میں مطاف  نہیں جا سکتے،  میں چلی گئی اور طواف بھی کرلیا، کیوں کہ  اس وقت میں 9  ویں جماعت میں تھی،  بعد میں میں نے 10ویں  جماعت میں یہ سب پڑھا؛   اب  میں اللہ سے معافی مانگ چکی ہوں سچے دل سے اور کلمہ طیبہ بھی پڑھ لیا تھا، اب آپ بتائیں کہ میں اور کیا کروں ؟  کیوں کہ میں یہ بات لے کے بہت پریشان ہوں ۔

جواب

واضح رہے کہ حائضہ عورت  ناپاکی کی وجہ سےمسجدِ حرام نہیں جاسکتی،  نہ ہی طواف کرسکتی ہے؛ کیوں کہ  طواف کے لیے   طہارت شرط ہے ،لہذا اگر حیض کی حالت میں  طواف کر لیا ہے،تو پاکی کے بعد غسل کرکے طواف دوبارہ کرلیاجائے،تلافی ہوجائے گی اور اگر اپنے شہر واپسی ہوچکی ہے ،یعنی طواف کی قضا کی کوئی صورت ممکن نہیں تو ایک بکری حدود حرم میں  ذبح کرنی ہوگی؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کو  چاہیے کہ کسی سے رابطہ کر کے پیسے بھجواکر یا   کسی زائر کے ہاتھ رقم دے کر حدودِ حرم میں ایک بکری ذبح کروادے،تو کافی ہو جائے گا۔

مبسوطِ سرَخسی میں ہے:

"(فصل): وأما الأحكام التي تتعلق بالحيض عشرة أو أكثر... ومنها أنها لا تطوف بالبيت، لقوله - صلى الله عليه وسلم - لعائشة  رضي الله عنها  حين حاضت بسرف : "اصنعي جميع ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت".
 ومنها أن لا تدخل المسجد؛ لأن ما بها من الأذى أغلظ من الجنابة والجنب ممنوع من دخول المسجد فكذلك الحائض، وهذا؛ لأن المسجد مكان الصلاة فمن ليس من أهل أداء الصلاة ممنوع من دخوله."

(كتاب الحيض و النفاس، فصل الأحكام التي تتعلق بالحيض و النفاس، ج3، 153، ط: دار المعرفة بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(ومنها): أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور ... (ومنها): حرمة الطواف لهما بالبيت وإن طافتا خارج المسجد . هكذا في الكفاية. وكذا يحرم الطواف للجنب. هكذا في التبيين."

 ( كتاب الطهارة، الفصل الرابع في أحكام الحيض والنفاس و الإستحاضة، ط: رشيدية)

فتاوی شامی  میں ہے:

"أو طاف للقدوم) لوجوبه بالشروع (أو للصدر جنبا) أو حائضا (أو للفرض محدثا  ولو جنبا فبدنة إن) لم يعده والأصح وجوبها في الجنابة وندبها في الحدث، وأن المعتبر الأول والثاني جابر له، فلا تجب إعادة السعي جوهرة.

(قوله: لوجوبه بالشروع) أشار إلى أن الحكم كذلك في كل طواف هو تطوع، فيجب الدم لو طافه جنبا، والصدقة لو محدثا كما في الشرنبلالية عن الزيلعي. وأفاد أن الكفارة تجب بترك الواجب الاصطلاحي بلا فرق بين الأقوى والأضعف، فإن ما وجب بالشروع دون ما وجب بإيجابه تعالى كطواف الصدر لاشتراكهما في الوجوب الثابت بالدليل الظني، بخلاف الطواف الفرض الثابت بالقطع فلذا وجبت فيه مع الجناية بدنة إظهارا للتفاوت من حيث الثبوت فافهم. 

(قوله: إن لم يعده) أي الطواف الشامل للقدوم والصدر والفرض، فإن أعاده فلا شيء عليه فإنه متى طاف أي طواف مع أي حدث ثم أعاده سقط موجبه. اهـ"

(کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ج2، ص550، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں