بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کی حالت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے یا نہیں؟


سوال

حیض کی حالت میں طلاق ہوجاتی ہے؟ میں نے دو طلاقیں دی تھیں، پہلے میں نے غصہ میں طلاق بولا، یہ مجھے یاد نہیں کہ کتنی دفعہ بولا، پھر میری بیوی نے ٹھیک سے سنا نہیں، پھر مجھے  بلایا، اور کہاکہ طلاق دو، میں نے دو دفعہ طلاق دی تھی، میں شاید غصہ میں تھا، اور میں حلفیہ بیان دیتاہوں کہ میرا ارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا، اور نہ میری نیت طلاق دینے کی تھی۔

اب طلاق دینے کے بعد ہم رجوع کرسکتے ہیں؟ میری بیوی حیض سے تھی۔

جواب

واضح رہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے سے شرعاً طلاق واقع ہوجاتی ہے، اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینے والا حدیث کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے  گناہ گار ہوگا،  کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع فرمایا ہے، اور حالتِ حیض میں طلاق دینا مکروہِ تحریمی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ نے اپنی بیوی کو جو حالتِ حیض میں طلاق دی ہے، وہ واقع ہوگئی ہے، البتہ اس کا گناہ آپ پر ہے، تاہم کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ اس سلسلے میں سوال مبہم ہے، آپ نے پہلی دفعہ کیا الفاظ ادا کیے اور پھر دوسری مرتبہ کیا الفاظ کیے؟ پوری تفصیل وضاحت کے ساتھ  لکھ کر سوال دوبارہ ارسال کریں۔

سنن أبی داود میں ہے:

"عن أبي هريرة : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌ثلاث ‌جدهن جد وهزلهن جد: النكاح، والطلاق، والرجعة.»."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب: في الطلاق على الهزل، ج: 2، ص: 225، رقم: 2194، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)

البنایہ میں ہے:

"(وإذا طلق الرجل امرأته في حالة الحيض وقع الطلاق) ش: ويأثم بإجماع الفقهاء... قال في " الأصل ": وإذا طلق الرجل امرأته وهي حائض فقد أخطأ السنة، والطلاق واقع عليها."

(‌‌كتاب الطلاق، ج: 5، ص: 293،292، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق، وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء، كقوله يا مطلقة أنت طالق ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات."

(كتاب الطلاق، الفصل الرابع فيما يرجع إلى صريح الطلاق، نوع آخر: في تكرار الطلاق وإيقاع العدد في المدخولة وغير المدخولة، ج: 3، ص: 212،211، ط: دار احياء التراث العربي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 187، ط: سعید)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في ‌الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج: 1، ص: 473، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں