بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کے ایام میں نماز کا حکم


سوال

میرے حیض کی عادت ہے کہ شروع میں تھوڑا خون آتا ہے، پھر کبھی ایک دن تک یا دو ڈھاںٔی دن تک خون نہیں آتا اس کے بعد مسلسل دس دن تک آتا ہے ۔

مجھے 12 اکتوبر کو خون نظر آیا لیکن معلوم نہیں آگے کے راستہ سے آیا یا پیچھے کے راستہ سے؟ پھر 14 اکتوبرسے مسلسل خون آنا شروع ہو گیا ۔

سوال یہ ہے کہ   12 اور 14 اکتوبر میں جو نمازیں پڑھیں ان کا کیا حکم ہے؟اور  میرا حیض کس دن سے شمار ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب پہلے دن خون آئے اور دو دن رک جائے،پھر آگے دس دن مسلسل خون آئے،تو ابتداءِ حیض پہلے دن سے ہوگی اور درمیان کے دودن بھی حیض میں شمار ہوں گےاور اس میں نماز نہیں ہوگی۔پہلے دن سے دس دن تک حیض کے ایام شمار ہوں گےاور اس کے بعد کے ایام استحاضہ شمار ہوں گے۔

البتہ اگر پہلے دو دن جو خون آیا وہ پیچھے کے راستے سے آیا ہو ،یعنی بواسیر یا اس قسم کی کسی بیماری کی وجہ سے ہو تو اس کا حکم یہ نہیں ہوگا جو اوپر مذکور ہے؛ لہذا سائلہ کو اگر اس قسم کا کوئی مرض ہے تو اس کا حکم جاننے کے لیے وضاحت کے بعد دوبارہ جواب طلب کیا جاسکتاہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أما المعتادة فما زاد على عادتها ويجاوز العشرة في الحيض والأربعين في النفاس يكون استحاضة كما أشار إليه بقوله أو على العادة إلخ. أما إذا لم يتجاوز الأكثر فيهما، فهو انتقال للعادة فيهما، فيكون حيضا ونفاسا رحمتي."

(کتاب الطهارة، باب الحيض، ج: 1، ص: 285، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"ثم اعلم أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان خمسة عشر يوما فأكثر يكون فاصلا بين الدمين في الحيض اتفاقا فما بلغ من كل من الدمين نصابا جعل حيضا، وأنه إذا كان أقل من ثلاثة أيام لا يكون فاصلا وإن كان أكثر من الدمين اتفاقا."

( كتاب الطهارة، باب الحيض،ج:1، ص:289، ط:دار الفكر۔بيروت)

فتاوىٰ ہندیہ میں ہے:

"(الأحكام التي يشترك فيها الحيض والنفاس ثمانية) (منها) أن يسقط عن الحائض والنفساء الصلاة فلا تقضي. هكذا في الكفاية إذا رأت المرأة الدم تترك الصلاة من أول ما رأت قال الفقيه وبه نأخذ. كذا في التتارخانية ناقلا عن النوازل وهو الصحيح. كذا في التبيين. إذا حاضت في الوقت أو نفست سقط فرضه بقي من الوقت ما يمكن أن تصلي فيه أو لا. هكذا في الذخيرة .... (ومنها) أن يحرم عليهما الصوم فتقضيانه هكذا في الكفاية إذا شرعت في صوم النفل ثم حاضت يلزمها القضاء احتياطا. هكذا في الظهيرية."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع في احكام الحيض، ج:1، ص:38، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں