میری بیوی حیض سے ہوتی ہے، ان ایام میں میں اپنی بیوی سے علیحدہ الگ بستر پر سوسکتا ہوں؟ اس ڈر سے کہ کہیں حیض کا خون میرے کپڑے اور بدن میں نہ لگ جائے جس سے میری نماز فجرخراب ہو؟
بیوی اگر حیض کی حالت میں ہو تو اس وجہ سے بستر الگ نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ حسبِ معمول ساتھ ہی لیٹنا چاہیے، اس حال میں بستر الگ کردینا یہودیوں کا فعل ہے جس کی مشابہت سے بچنا لازم ہے، اس کے حل کے لیے رات کو سونے کے کپڑے علیحدہ پہن لیے جائیں یا عورت ایسی تدابیر اختیار کرلے جس سےخون کپڑوں سے باہر نکلنے سے محفوظ رہے، یا ایک ہی بستر پر قدرے فاصلہ سے میاں بیوی سو جائیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 292)
"(و قربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقًا.
(قوله: يعني ما بين سرة وركبة) فيجوز الاستمتاع بالسرة و ما فوقها و الركبة و ما تحتها و لو بلا حائل، و كذا بما بينهما بحائل بغير الوطء و لو تلطخ دمًا، و لايكره طبخها و لا استعمال ما مسته من عجين أو ماء أو نحوهما إلا إذا توضأت بقصد القربة كما هو المستحب فإنه يصير مستعملًا. و في الولوالجية: و لاينبغي أن يعزل عن فراشها؛ لأن ذلك يشبه فعل اليهود، بحر. وفي السراج: يكره أن يعزلها في موضع لا يخالطها فيه."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202591
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن