بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حیض کا خون رک جانے کے بعد غسل کرنے سے پہلے جماع کرنے کا حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ بیوی کو تین دن میں ایام حیض ختم ہوگئے اور ہم نے پانچویں دن شام میں مباشرت کرلی، بیوی نے غسل نہیں کیا تھا، ہم نے اللہ سے توبہ تو کرلی ہے صلاۃالتوبہ پڑھ کر، لیکن ہم جاننا چاہتے ہیں کہ شریعت کے اعتبار سے یہ عمل گناہ میں تو شامل نہیں ہوا؟ اور اگر ہوا تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی بیوی کی عادت اگر تین دن تھی اور تین دن میں خون بند ہو گیا تو ایسی صورت میں پانچویں دن اُس سے ہم بستری کرنا جائز تھا، اس میں کوئی قباحت نہیں، اگر چہ اس کی بیوی نے اب تک غسل نہیں کیا تھا، لیکن اس کے لیے غسل نہ کرنا  ناجائز تھا ، کیوں کہ اس صورت میں نمازیں قضا ہو گئیں۔

اور اگر اس کی عادت زیادہ دن کی تھی اور صرف تین دن میں ہی خون رُک گیا، تو اس صورت میں سائل کے لیے عادت کے دن پورے ہونے سے پہلے ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا اور زوجین  کو چاہیے کہ اس پر توبہ و استغفار کریں ، البتہ  اگر تین دن بعد خون رک گیا اور اس کے بعد دس دن کے اندر بالکل نہیں آیا تو ہم بستری کرنے کی وجہ سے گناہ نہیں ہوا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌ويحل ‌وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوبا بل ندبا.

(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج: 1، ص: 294، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"الطهر المتخلل بين الدمين والدماء في مدة الحيض يكون حيضا."

(كتاب الطهارة، الباب السادس في الدماء المختضة بالنساء، الفصل الأول في الحيض، ج: 1، ص: 36، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں