بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہیئر ٹرانسپلانٹ(Hair Transplant) اورآرگن ٹرانسپلانٹ(Organ Transplant) کا حکم


سوال

1۔ہیئر ٹرانسپلانٹ(Hair Transplant) کا کیا حکم ہے؟

2۔آرگن  ٹرانسپلانٹ(Organ Transplant)  کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

1۔ہیئر ٹرانسپلانٹ (Hair transplant) کا حکم:

صورتِ مسئولہ میں اگر  اپنے ہی جسم  سے ایک جگہ کے بال نکال کرسرپر بذریعہ آپریشن پیوند کاری کی جائےاور وہ اس طور پر کہ بال اصل بالوں کی طرح جسم کا حصہ بن جائیں،تو ایسا کرنا جائز ہے،البتہ اگر خود  اپنے بال ایک جگہ سے نکال کر دوسری جگہ لگانے میں اگر سخت تکلیف سے گزرنا  پڑے تو محض حصولِ زینت کے لیے ایسا کرنا بھی ممنوع ہے، نیز اگر ہیئر ٹرانسپلانٹ میں  کسی دوسرے انسان کے بال سر پر لگائےجائیں تو ایساکرنا گناہِ کبیرہ ہے،کیوں کہ انسانی بالوں کو بالوں سے جوڑنے والوں  پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے،نیز اگر ہیئر ٹرانسپلانٹ میں مصنوعی  بال  خنزیر یا کسی اور نجس چیز  کے ہوں، تو وہ بھی لگانا ناجائز ہے،نیزاگر مصنوعی بال کسی دوسرے انسان یا خنزیر  کے نہ ہوں تو ان کا لگوانا جائز ہے، بشرط یہ کہ ان مصنوعی بالوں سے دھوکہ یا خلافِ حقیقت صورت کا اظہار مقصود نہ ہو۔

صحیح  بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌لعن الله الواصلة والمستوصلة، والواشمة والمستوشمة."

( كتاب اللباس،باب الوصل فی الشعر،ج:7،ص:165،ط:دار طوق النجاۃ)

آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں  کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر  (بھی لعنت فرمائی )۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة» النامصة التي تنتف الشعر من الوجه والمتنمصة التي يفعل بها ذلك

(قوله سواء كان شعرها أو شعر غيرها) لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضا: لكن في التتارخانية، وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئا من الوبر (قوله «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زورا والمستوصلة: التي يوصل لها ذلك بطلبها ۔۔۔ ومثله في نهاية ابن الأثير وزاد أنه روي عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - أنها قالت: ليس الواصلة بالتي تعنون. ولا بأس أن تعرى المرأة عن الشعر، فتصل قرنا من قرونها بصوف أسود وإنما الواصلة التي تكون بغيا في شبيهتها فإذا أسنت وصلتها بالقيادة والواشرة كأنه من وشرت الخشبة بالميشار غير مهموز اه."

(کتاب الحظر والإباحة، ج:6،ص:373،ط:سعید)

الفقه الاسلامي وادلته میں ہے:

"ويحرم كما تقدم‌‌ وصل الشعر بشعر آدمي آخر على الرجال والنساء الأيامى والمتزوجين، للتجمل وغيره، بلا خلاف، سواء كان شعر رجل أو امرأة، وسواء شعر المَحْرم والزوج وغيرهما بلا خلاف، لعموم الأدلة، ولأنه يحرم الانتفاع بشعر الآدمي وسائر أجزائه لكرامته، بل يدفن شعره وظفره وسائر أجزائه.فإن وصلته بشعر غير آدمي: فإن كان شعراً نجساً، وهو شعر الميتة وشعر ما لا يؤكل لحمه إذا انفصل في حياته، فهو حرام أيضاً للحديث الآتي بلعن الواصلة والمستوصلة، ولأنه حمل نجاسة في صلاتها وغيرها عمداً.وأما الشعر الطاهر من غير الآدمي.قال الكاساني من الحنفية: ويكره أي كراهة تحريم للمرأة أن تصل شعر غيرها من بني آدم بشعرها، لقوله عليه الصلاة والسلام: «لعن الله الواصلة والمستوصلة» ولأن الآدمي بجميع أجزائه مكرم، والانتفاع بالجزء المنفصل منه إهانة له، ولهذا كره بيعه. ولا بأس بذلك من شعر البهيمة وصوفها؛ لأنه انتفاع بطريق التزين بما يحتمل ذلك، ولهذا احتمل الاستعمال في سائر وجوه الانتفاع، فكذا في التزين."

(الحظر والإباحة،وصل الشعر،ج:4،ص:2680،ط:دار الفکر)

2۔  کسی انسانی عضو کا  (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا)   دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے) درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر  جائز نہیں ہے:

1۔زندہ انسان اپنے جسم اور اعضاء کا خود مالک نہیں ہے اور ان میں مالکانہ تصرفات نہیں کرسکتا، اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

(ا)خود کشی حرام ہے،صحیح مسلم میں  روایت ہے :

"عن ‌ثابت ‌بن ‌الضحاك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:۔۔۔ومن قتل نفسه بشيء في الدنيا عذب به يوم القيامة۔۔۔الخ"

(كتاب الايمان،  باب غلظ تحريم قتل الإنسان نفسه، وأن من قتل نفسه بشيء عذب به في النار، وأنه لا يدخل الجنة إلا نفس مسلمة،ج:1،ص:104،ط:دار احياء التراث العربي)

حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے دنیا میں اپنے آپ کو جس شےسے قتل کیا،اسی شے سے وہ قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔

(ب)کسی  زندہ یا مردہ کےعضو کو بگاڑنا بھی حرام ہے۔

 چناچہ مسلم شریف میں روایت ہے:

"عن جابر أن ‌الطفيل ‌بن ‌عمرو الدوسي، أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، هل لك في حصن حصين ومنعة؟ - قال: حصن كان لدوس في الجاهلية - فأبى ذلك النبي صلى الله عليه وسلم للذي ذخر الله للأنصار، فلما هاجر النبي صلى الله عليه وسلم إلى المدينة، هاجر إليه ‌الطفيل ‌بن ‌عمرو وهاجر معه رجل من قومه، فاجتووا المدينة، فمرض، فجزع، فأخذ مشاقص له، فقطع بها براجمه، فشخبت يداه حتى مات، فرآه ‌الطفيل ‌بن ‌عمرو في منامه، فرآه وهيئته حسنة، ورآه مغطيا يديه، فقال له: ما صنع بك ربك؟ فقال: غفر لي بهجرتي إلى نبيه صلى الله عليه وسلم، فقال: ما لي أراك مغطيا يديك؟ قال: قيل لي: لن نصلح منك ما أفسدت، فقصها الطفيل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اللهم و ليديه فاغفر."

(کتاب الإیمان، باب الدليل على أن قاتل نفسه لا يكفر،ج:1،ص:108،ط:دار احیاء التراث العربی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ (منورہ)کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ کی طرف حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی، مدینہ کی آب وہوا ان کو راس نہ آئی اور وہ شخص بیمار ہوگیا اور (بیماری سے) اتنا پریشان ہوا کہ مجبورہوکراس نے اپنے تیر کے پھل سے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے،اس کے ہاتھوں سے اتنا خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ مرگیا، طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اس کو خواب میں دیکھا کہ وہ اچھی ہیئت میں ہےاور دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھوں کو ڈھانب رکھا ہے، طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ (تمہارے مرنے کے بعد) تمہاے رب نےتمہارے ساتھ کیا کیا، اس نے جواب دیا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف میری ہجرت کی وجہ سے میری بخشش کردی ، پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے اپنے ہاتھ کیوں ڈھانپ رکھے ہیں؟اس نےجواب دیا کہ مجھ سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ جو تم نے خود کاٹ کر بگاڑے ہیں ہم ان کو درست نہ کریں گے اور چوں کہ وہ درست نہیں ہوئے اس لیے میں ان کو ڈھانپے ہوئے ہوں، طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ (اے اللہ) اس شخص کے ہاتھوں کو بھی بخش دے۔

پیوندکاری کے لیے جب معطی کا عضو نکالا جائے گا تو ظاہر ہے کہ جسمانی ہیئت بگڑے گی جو کہ مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ناجائز  ہے۔

2۔آدمی مردہ ہو تب بھی شریعت نے اس کے اکرام کا حکم دیا ہے۔

چنانچہ مسند احمد کی روایت ہے:

"عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم إذا بعث جيوشه قال۔۔۔ولا تمثلوا۔۔۔الخ"

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے لشکر روانہ کرتے تھےتو ان کو یہ (بھی) فرماتے تھے کہ (لاش کا) مثلہ نہ کرنا۔

(من مسند بني هاشم،مسند عبد الله بن العباس بن عبد المطلب عن النبي صلى الله عليه وسلم،ج:4،ص:461،ط:مؤسسة الرسالة)

نیز ابو داؤد شریف میں ہے:

"عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كسر ‌عظم الميت ككسره حيا."

(كتاب الجنائز، باب في الحفار يجد العظم هل يتنكب ذلك المكان؟،ج:3،ص:212،ط:المكتبة العصرية)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردہ کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا۔

پیوندکاری کے لیے مردہ جسم کے اعضاء نکالنا انسان کے اکرام کے خلاف ہے اور مثلہ کی صورت بھی ہے جوکہ مذکورہ بالا احادیث کی بنیاد پر ناجائز ہے۔

3۔کسی دوسری انسان کے اجزاء استعمال کرنا جائز نہیں۔

 چناچہ بخاری شریف کی روایت ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌لعن الله الواصلة والمستوصلة، والواشمة والمستوشمة."

( كتاب اللباس،باب الوصل فی الشعر،ج:7،ص:165،ط:دار طوق النجاۃ)

آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں  کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر  (بھی لعنت فرمائی )۔

4۔ کسی زندہ حیوان (جس میں انسان بھی شامل ہے) کے جسم سے اگر کوئی جز  الگ کردیا جائے، وہ  مردار اور ناپاک کے حکم میں ہوجاتا ہے، جیساکہ سنن ابی داؤد  میں ہے:

"قال النبي صلى الله عليه وسلم: ما ‌قطع من البهيمة وهي حية فهي ميتة."

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ زندہ جانور سے کاٹا جائے وہ مردار ہے۔

(كتاب الصيد،باب في صيد قطع منه قطعة،ج:3،ص:111،ط:المكتبة العصرية)

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جوعضو کسی زندہ انسان یا جانور سے کاٹا جاتا ہے وہ بھی مردار ونجس کے حکم میں ہوتا ہے،لہذا عضو کی پیوند کاری کی وجہ سے پوری عمر ایک ناپاک چیز سے جسمِ انسانی ملوث رہے گا۔

5۔ انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو۔

  جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه."

( کتاب الودیعۃ،ج:4،ص:338،ط:رشیدیۃ)

6۔ انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے  الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، چناچہ شرح سیر الکبیر میں ہے:

شرح السير الكبير میں ہے:

‌"والآدمي ‌محترم بعد موته على ما كان عليه في حياته. فكما يحرم التداوي بشيء من الآدمي الحي إكراما له فكذلك لا يجوز التداوي بعظم الميت."

(باب دواء الجراحة،ص:128)

مذكوره بالا دلائل كی روشنی ميں آرگن ٹرانسپلانٹ (Organ Transplant) یا کسی بھی عضو کی پیوندکاری کرنا جائز نہیں ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں