بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہیئر ریموونگ ٹریٹمنٹ کی وجہ سے حالتِ احرام میں بال گرنے کا حکم


سوال

ایک خاتون کسی وجہ سے پورے بدن کے بال صاف کروا رہی ہے،اور اس کے تقریباً پانچ سیشن ہوں گے ، یہ خاتون دو مرتبہ  ڈاکٹر کے پاس جاچکی ہے، لیکن اب یہ حج پر جارہی ہے اور ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اب جو بال آئیں گے وہ خود بہ خود جھڑ جائیں گے، سوال یہ ہے کہ اگریہ خاتون حالتِ احرام میں ہو اور جسم کے بال خود جھڑ جائیں تو کیاحکم ہے آیا دم لازم آئے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون جو کہ بدن سے بال دور کروانے کے لیےمخصوص طریقے پر معالجہ کے عمل سے گزر رہی ہے، اگر حالت ِ احرام میں اس کے بال اس کے اپنے فعل سے نہ گریں، بلکہ ہاتھ لگائے بغیر خود بخود گر جائیں، اور وہ اس دوران بال گرانے والی دوائی یا کیمیکل و غیرہ بھی استعمال نہ کر رہی ہو، تو اس پر دم یا کوئی اور جزا  لازم نہیں ہوگی؛ البتہ اگر سابقہ ٹریٹمنٹ کی وجہ سے بال کمزور ہو گئے ہوں، لیکن  اس کی اپنی حرکت مثلاً ہاتھ لگانے یا کھجلانے  سے  گریں، تو  اس کا حکم یہ ہے کہ:

  1. اگر سر کے بال وضو یا  غسل کے دوران ٹوٹ/گر  گئے، تو تین یا اس سے کم بال ٹوٹ جانے پر  ایک مٹھی گندم یا اس کی قیمت صدقہ  کرنا  کافی ہے؛ اور اگر تین سے زیادہ بال گر جائیں ،تو  پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ہوگی؛ ہر مرتبہ (ہر وضو یا غسل )کا حساب  الگ الگ ہوگا، شروعِ احرام سے آخرِ احرام تک ایک ساتھ شمار   نہیں کیا جائے گا۔
  2. باقی  بدن کے بال  اگر  ہاتھ لگانے کی وجہ سے گرجائیں، تو   (چاہے تین سے زیادہ ہوں یا کم) ہر بال کے بدلے ایک مٹھی گندم یا اس کی قیمت کا صدقہ لازم ہوگا۔

ملحوظ رہے کہ اگر مذکورہ خاتون  اپنے جسم کے بال خود صاف نہیں کر رہی، بلکہ کسی ڈاکٹر سے  صاف کروارہی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ضرورتِ شدیدہ کے بغیر کسی وجہ سے کروارہی ہے تو کسی دوسری عورت سے بھی مستورہ اعضاء کے بال صاف کروانا جائز نہیں ہے، اور مرد ڈاکٹر سے جسم کے کسی بھی حصے کے بال صاف کروانا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر ضرورتِ شدیدہ کی بنا پر بطورِ علاج بال صاف کروارہی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کا طریقہ علاج سیکھ کر وہ خود کرسکتی ہے یا اس کا شوہر طریقہ سیکھ کر بال صاف کرسکتا ہے تو  کسی دوسرے کے سامنے ستر کھولنے اور دوسرے کے لیے ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی، اور اگر مذکورہ طریقہ علاج خود نہیں سیکھ سکتی، اور شوہر بھی نہیں ہے یا شوہر بھی طریقہ علاج نہیں سیکھ سکتا، تو کسی خاتون ڈاکٹر سے علاج کروائے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو  پھر  مرد ڈاکٹر کے  لیے شدید ضرورت کے موقع پر بقدرِ ضرورت اس علاج کی اجازت ہوگی، اور  ڈاکٹر  کو چاہیے کہ نگاہ پست رکھے۔

مناسکِ ملّا علی قاری میں ہے:

"لا يخفى أن الشعر إذا سقط بنفسه لا محظور فيه و لا محذور، لاحتمال قلعه قبل إحرامه و سقوطه بغير قلعه."

(باب الجنايات، فصل في سقوط الشعر، ص167، ط: مطبعة الترقي الماجدية بمكة المحميّة، الطبعة الأولى)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو حلق) أي أزال (ربع رأسه) أو ربع لحيته (أو) حلق (محاجمه) يعني واحتجم وإلا فصدقة كما في البحر عن الفتح (أو) حلق (إحدى إبطيه أو عانته أو رقبته) كلها..

قال ابن عابدين: (قوله أي أزال) أي أراد بالحلق الإزالة بالموسى أو غيره مختارا أو لا، فلو أزاله بالنورة أو نتف لحيته أو احترق شعره بخبزه أو مسه بيده وسقط فهو كالحلق،بخلاف ما إذا تناثر شعر بالمرض أو النار بحر عن المحيط.
قلت: وشمل أيضا التقصير كما في اللباب، قال شارحه وصرح به في الكافي والكرماني وهو الصواب قياسا على التحلل. ووقع في الكفاية وشرح الهداية أن التقصير لا يوجب الدم. اهـ. (قوله ربع رأسه إلخ) هذا هو الصحيح المختار الذي عليه جمهور أصحاب المذهب. وذكر الطحاوي في مختصره أن في قول أبي يوسف ومحمد لا يجب الدم ما لم يحلق أكثر رأسه شرح اللباب، وإن كان أصلع إن بلغ شعره ربع رأسه فعليه دم وإلا فصدقة، وإن بلغت لحيته الغاية في الخفة إن كان قدر ربعها كاملة فعليه دم وإلا فصدقة لباب، واللحية مع الشارب عضو واحد فتح (قوله محاجمه) أي موضع الحجامة من العنق كما في البحر (قوله وإلا فصدقة) أي وإن لم يحتجم بعد الحلق فالواجب صدقة ...
[إلي أن قال] والحاصل أن كل واحد من الثلاثة أعني الإبط أو العانة والرقبة مقصود بالحلق وحده فيجب به دم، لكن لا يقوم ربعه مقام كله لما مر بخلاف الصدر والساق ونحوهما فيجب بهما صدقة."

(كتاب الحج، باب الجنايات في الحج، 2/ 549،  ط:  الحلبي )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں