ایک شخص حافظ قرآن تو ہے، وہ ایک ماہ میں حفظ میں ختم بھی پورا کرتا ہے، اس ترتیب سے کہ روزانہ ایک پارہ پر کم از کم ایک گھنٹہ محنت کرنی پڑتی ہے، سال میں دو تین ختم ایک ثقہ حافظ کو بھی سناتا ہے، مگر اس کے باوجود سارا قرآن کہیں سے بھی کسی وقت نہیں سنا سکتا، ایک پارہ یا پون پارہ سنانے کے لیے کم از کم ایک گھنٹہ دہرائی کی ضرورت ہوتی ہے، پھر وہ وہی حفظ پارہ سنا یا خود پڑھ سکتا ہے، دوسرا پارہ نہیں، دوسرے کے لیے دوسرا گھنٹہ چاہیے ہوتا ہے، پوچھنا یہ کہ ہے کہ کیا اس پر شرعاً حافظ قرآن کا اطلاق ہو گا؟ قبر اور قیامت میں حافظ قرآن کی ہی مراعات حاصل ہوں گی؟ جن مراعات کا وعدہ حافظ سے کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جو شخص حفظ کرنے کے بعد مسلسل اپنی محنت اور عزم سے قرآن کریم کو یادکرتا رہے، لیکن حافظہ کی کم زوری کی وجہ سے پختگی مضبوط نہ رہ سکتی ہو، تو ایسا شخص حافظِ قرآن ہی کہلائے گا، اور اس کو حافظِ قرآن والی مراعات حاصل ہوں گی، بلکہ امید ہے کہ ایسے شخص کو اس کی محنت اور مشقت پر دہرا اجر ملےگا۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الماهر بالقرآن مع السفرة الكرام البررة، والذي يقرأ القرآن ويتتعتع فيه وهو عليه شاق له أجران» " متفق عليه.
(وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الماهر بالقرآن) ، أي الحاذق من المهارة وهي الحذق، جاز أن يريد به جودة الحفظ أو جودة اللفظ وأن يريد به كليهما وأن يريد به ما هو أعم منهما، وقال الطيبي: هو الكامل الحفظ الذي لا يتوقف في القراءة ولا يشق عليه،قال الجعيري في وصف أئمة القراءة: كل من أتقن حفظ القرآن وأدمن درسه وأحكم تجويد ألفاظه... (وهو) ، أي القرآن، أي حصوله أو تردده فيه (عليه) ، أي على ذلك القارئ (شاق) ، أي شديد يصيبه مشقة جملة حالية (له أجران) ، أي أجر لقراءته وأجر لتحمل مشقته وهذا تحريض على تحصيل القراءة،وليس معناه أن الذي يتتعتع فيه له من الأجر أكثر من الماهر بل الماهر أفضل وأكثر أجرا مع السفرة وله أجور كثيرة حيث اندرج في سلك الملائكة المقربين أو الأنبياء والمرسلين أو الصحابة المقربين (متفق عليه) ورواه الأربعة."
(كتاب فضائل القرآن، ج: 4، ص: 1455، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144505100693
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن