بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہفتے کے روز مچھلیاں کھانے کا حکم


سوال

ہفتہ کے دن مچھلیاں کھانا کیسا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ ہفتہ کے دن یا کسی بھی دن مچھلی کھانا جائز ہے، شریعت کی رو سے ہفتہ کے دن یا کسی بھی دن مچھلی نہ کھانے کا حکم نہیں، البتہ بنی اسرائیل کی ایک بستی ’’ایلہ‘‘ جو  بحرِ قلزم  کے قریب آباد تھی، اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن مچھلی پکڑنے سے منع فرمایا تھا اور یہ اس قوم کی آزمائش تھی، لیکن جب وہ اس آزمائش میں ناکام ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو پسِ پشت ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بندر اور خنزیر بنا دیا۔

تاہم یہ آزمائش اور یہ حکم اُسی امت کے ساتھ خاص تھی، امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ حکم نہیں ہے۔ نیز اسلام کے روشن واضح اور باسہولت احکام آنے کے بعد پچھلی امتوں کے ایسے احکام کو نیکی سمجھ کر اختیار کرنا جن کا ہماری شریعت نے التزام نہیں کیا، اس سے قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں منع کیا گیا ہے، لہٰذا ہفتہ والے دن نہ صرف بلا کسی شک و تردد کے مچھلی کھانا جائز ہے، بلکہ اگر کوئی اس دن مچھلی کھانے میں کراہت سمجھتا ہے یا اس دن مچھلی نہ کھانا زیادہ بہتر سمجھتا ہے تو اس کا یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔

سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ"[208]

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! مکمل طور پر اسلام میں داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو، اس لیے کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔‘‘

مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیات اس موقع پر نازل ہوئیں جب ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے جو یہودیت سے مسلمان ہوئے تھے، انہوں نے یہ سوچ کر کہ یہودیت میں اونٹ کا گوشت کھانا بالکلیہ منع ہے، اور اسلام میں اسے کھانا فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ صرف مباح ہے، اس لیے اگر میں اونٹ کا گوشت نہ کھاؤں تو اسلام کے کسی حکم کی صریح مخالفت بھی نہیں ہوگی اور شریعتِ موسویہ پر بھی عمل ہوجائے گا، گویا اپنے گمان کے مطابق جمع بین الخیرین کا تصور باندھا۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سے سختی سے منع فرمادیا کہ اسلام قبول کرنے کا مطلب تمام لوازمات سمیت اسلام قبول کرنا ہے، یہ طرز مسلمان کے شایانِ شان نہیں، اس لیے نیک لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس سے رک جائیں۔ چناں چہ ان صحابی رضی اللہ عنہ نے ایسا خیال بھی ذہن سے نکال دیا۔ قرآنِ پاک نے اسے شیطان کی پیروی کے مترادف قرار دیا ہے، اس لیے کسی کے لیے روا نہیں ہے کہ اسلام کے روشن اور واضح و سہل احکام آنے کے بعد سابقہ شریعتوں کے منسوخ شدہ احکام کو کارِ ثواب یا تقویٰ سمجھ کر اختیار کرے۔

تفسير ابن كثير میں ہے:

"يقول [الله] (1) تعالى، لنبيه صلوات الله وسلامه عليه: {واسألهم} أي: واسأل هؤلاء اليهود الذين بحضرتك عن قصة أصحابهم الذين خالفوا أمر الله، ففاجأتهم نقمته على صنيعهم واعتدائهم واحتيالهم في المخالفة، وحذر هؤلاء من كتمان صفتك التي يجدونها في كتبهم؛ لئلا يحل بهم ما حل بإخوانهم وسلفهم. وهذه القرية هي "أيلة" وهي على شاطئ بحر القلزم".

سورةالبقرة، الآية:163، ج:3، ص:493، ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

التفسير الواضح میں ہے:

"وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ لَا تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ". (163)

واسألهم يا محمد عن أهل القرية القريبة من البحر وقت أن اعتدوا على حدود الله، وتجاوزوها يوم السبت- وهو يوم يعظمونه بترك العمل فيه وجعله للعبادة- إذ تأتيهم أسماكهم يوم السبت ظاهرة على وجه الماء، قريبة لا تحتاج في الصيد إلى عناء، وفي غير يوم السبت تختفى ولا تظهر.
مثل ذلك البلاء المذكور نبلو السابقين والمعاصرين، ونعاملهم معاملة من يختبر حالهم ليجازى كلا على عمله، كل ذلك بسبب ما كانوا يفسقون ويخرجون عن طاعة الله".

(سورةالبقرة، الآية:163، ج:1، ص:779، ط:دار الجيل الجديد - بيروت)

تفسیر القرطبی میں ہے:

"(إذا يعدون في السبت) أي يصيدون الحيتان، وقد نهوا عنه، يقال سبت اليهود، تركوا العمل في سبتهم "... (إذ تأتيهم حيتانهم يوم سبتهم)" وقرى" أسباتهم". شرعا أي شوارع ظاهرة على الماء كثيرة. وقال الليث: حيتان شرع رافعة رءوسها. وقيل: معناه أن حيتان البحر كانت ترد يوم السبت عنقا «2» من البحر فتزاحم أيلة. ألهمها الله تعالى أنها لا تصاد يوم السبت، لنهيه تعالى اليهود عن صيدها. وقيل: إنها كانت تشرع على أبوابهم، كالكباش البيض رافعة رءوسها. حكاه بعض المتأخرين، فتعدوا فأخذوها في السبت".

(سورة الأعراف، ج:7، ص:305، ط:دار الكتب المصرية - القاهرة)

تفسیر الألوسی میں ہے:

"حكي أن موسى عليه السلام أراد أن يجعل يوما خالصا للطاعة وهو يوم الجمعة فخالفوه وقالوا: نجعله يوم السبت لأن الله تعالى لم يخلق فيه شيئا فأوحى الله تعالى إليه أن دعهم وما اختاروا ثم امتحنهم فيه فأمرهم بترك العمل وحرم عليهم فيه ‌صيد ‌الحيتان فلما كان زمن داود عليه السلام- اعتدوا- وذلك أنهم كانوا يسكنون قرية على الساحل يقال لها أيلة. وإذا كان يوم السبت لم يبق حوت في البحر إلا حظر هناك وأخرج خرطومه وإذا مضى تفرقت فحفروا حياضا وأشرعوا إليها الجداول وكانت الحيتان تدخلها يوم السبت بالموج فلا تقدر على الخروج لبعد العمق وقلة الماء فيصطادونها يوم الأحد".

(سورةالبقرة، ج:1، ص:283، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں