اگر کوئی شخص شوال کے روزے منگل سے رکھنا شروع کرے، اور بیچ میں سنیچر پڑ جاۓ تو کیا وہ سنیچر کو روزہ رکھے گا؟
اگر کوئی شخص صرف ہفتہ کے دن قصدًا ، ہفتہ کے دن کی تعظیم کی وجہ سے روزے رکھے تو یہ مکروہِ تنزیہی ہے، اور اگر اس میں یہود سے مشابہت کے ارادہ بھی ہو تو مکروہِ تحریمی ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنے معمول کے روزے رکھ رہا ہے اور درمیان میں ہفتہ آجائے، یا مستحب روزے ہفتہ کے دن آجائیں، یا ہفتہ کے ساتھ ، آگے یا پیچھے ایک اور دن بھی روزہ رکھ رہا ہے تو اس میں کسی قسم کی کراہت نہیں ہے۔
لہذا اگر شوال کے چھ مستحب روزے منگل کو شروع کیے ہوں اور درمیان میں ہفتہ کا دن آجائے تو اس دن روزہ رکھنا جائز ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی کراہت نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 375):
" وَالْمَكْرُوهُ تَحْرِيمًا كَالْعِيدَيْنِ. وَتَنْزِيهًا كَعَاشُورَاءَ وَحْدَهُ وَسَبْتٍ وَحْدَهُ
(قَوْلُهُ: وَسَبْتٍ وَحْدَهُ) لِلتَّشَبُّهِ بِالْيَهُودِ بَحْرٌ وَهَذِهِ الْعِلَّةُ تُفِيدُ كَرَاهَةَ التَّحْرِيمِ إلَّا أَنْ يُقَالَ: إنَّمَا تَثْبُتُ بِقَصْدِ التَّشَبُّهِ كَمَا مَرَّ نَظِيرُهُ ط.
قُلْت: وَفِي بَعْضِ النُّسَخِ وَأَحَدٍ بَدَلَ قَوْلِهِ وَحْدَهُ وَبِهِ صَرَّحَ فِي التَّتَارْخَانِيَّة فَقَالَ وَيُكْرَهُ صَوْمُ النَّيْرُوزِ وَالْمِهْرَجَانِ إذَا تَعَمَّدْهُ وَلَمْ يُوَافِقْ يَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ قَبْلَ ذَلِكَ وَهَكَذَا قِيلَ فِي يَوْمِ السَّبْتِ وَالْأَحَدِ. اهـ.
أَيْ يُكْرَهُ تَعَمُّدُ صَوْمِهِ إلَّا إذَا وَافَقَ يَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ قَبْلُ؛ كَمَا لَوْ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا أَوْ كَانَ يَصُومُ أَوَّلَ الشَّهْرِ مَثَلًا فَوَافَقَ يَوْمًا مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ وَأَفَادَ قَوْلُهُ وَحْدَهُ أَنَّهُ لَوْ صَامَ مَعَهُ يَوْمًا آخَرَ فَلَا كَرَاهَةَ؛ لِأَنَّ الْكَرَاهَةَ فِي تَخْصِيصِهِ بِالصَّوْمِ لِلتَّشَبُّهِ وَهَلْ إذَا صَامَ السَّبْتَ مَعَ الْأَحَدِ تَزُولُ الْكَرَاهَةُ؟ مَحَلُّ تَرَدُّدٍ؛ لِأَنَّهُ قَدْ يُقَالُ: إنَّ كُلَّ يَوْمٍ مِنْهُمَا مُعَظَّمٌ عِنْدَ طَائِفَةٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ فَفِي صَوْمِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا تَشَبُّهٌ بِطَائِفَةٍ مِنْهُمْ.
وَقَدْ يُقَالُ: إنَّ صَوْمَهُمَا مَعًا لَيْسَ فِيهِ تَشَبُّهٌ؛ لِأَنَّهُ لَمْ تَتَّفِقْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عَلَى تَعْظِيمِهِمَا مَعًا وَيَظْهَرُ لِي الثَّانِي بِدَلِيلِ أَنَّهُ لَوْ صَامَ الْأَحَدَ مَعَ الِاثْنَيْنِ تَزُولُ الْكَرَاهَةُ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُعَظِّمْ أَحَدٌ مِنْهُمْ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ مَعًا وَإِنْ عَظَّمَتْ النَّصَارَى الْأَحَدَ وَكَذَا لَوْ صَامَ مَعَ عَاشُورَاءَ يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ مَعَ أَنَّ الْيَهُودَ تُعَظِّمُهُ.
وَيَظْهَرُ مِنْ هَذَا أَنَّهُ لَوْ جَاءَ عَاشُورَاءُ يَوْمَ الْأَحَدِ أَوْ الْجُمُعَةِ لَا يُكْرَهُ صَوْمُ السَّبْتِ مَعَهُ وَكَذَا لَوْ كَانَ قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ يَوْمُ الْمِهْرَجَانِ أَوْ النَّيْرُوزِ لِعَدَمِ تَعَمُّدِ صَوْمِهِ بِخُصُوصِهِ وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210201365
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن