اگر کوئی لڑکا حافظِ قرآن ہے اور اس نے جو مسائل مستند عالم سے سنے ہوں یا پوچھے ہوں تو وہ مسائل لوگوں میں بیان کرسکتا ہے؟ لوگوں کو بتاسكتا ہے؟ اس کو گناہ تو نہیں ہوگا؟
مسئلہ بتانا ایک بہت بڑی شرعی ذمہ داری،اور انتہائی نازک وحساس کام ہے جس میں سائل کاسوال سمجھنا،اس کا مقصد پہچاننا اور اور اس کے زمانے ،مکان اور عرف کی واقفیت کے ساتھ ساتھ ، ملتی جلتی جزئیات میں امتیاز اور جواب میں مفتٰی بہٖ قول اختیار کرنا ،ایسے بہت سے امور ہیں جن کا ادراک ممارسۃ اور مسلسل تجربے کا متقاضی ہے، اور ان امور کی انجام دہی کسی مستند دارالافتاء سے وابستہ مفتی ہی کرسکتاہے، اس لیے کسی حافظِ قرآن جو کہ مفتی یا پختہ عالم نہیں ہے کے لیے مسائل بتانے میں جرأت کرنا صحیح نہیں ہے ۔
غیر مفتی شخص بوقتِ ضرورت اس شرط کے ساتھ مسئلہ آگے نقل کرسکتا ہے جب کسی مستند کتاب میں دیکھا ہو یا کسی مستندمفتی صاحب سے مسئلہ معلوم کیا ہو اور مسئلہ اچھی سمجھ بھی چکا ہو یا جواب کی تصدیق کسی مستند مفتی یا دار الافتاء سے کرچکا ہو، اور مسئلہ بعینہ آگے نقل کرے۔ غیر عالم شخص کا مستقل معمول بنالینا کہ لوگوں کے مسائل سن کر ان کے جوابات دے ، اس میں خطا کا غالب امکان ہے، لہٰذا مستند مفتی یا پختہ عالم کے علاوہ کوئی شخص مستقل مسائل نہ بتائے،اگر کسی جگہ کوئی پختہ عالم یا مستند مفتی موجود نہ ہو تو حافظ صاحب کو چاہیے کہ کسی مستند مفتی سے رجوع کرکے عوام کے مسائل کے جوابات حاصل کرے اور بعینہ وہ جوابات عوام تک منتقل کردے، یا کسی مستند مفتی صاحب سے بہشتی زیور یا تعلیم الاسلام وغیرہ کتابیں پڑھ کر ضروری مسائل اَزبر کرلے اور ان کتابوں سے دیکھ کر بعینہ مسائل نقل کردے، اور جو مسائل سمجھ نہ آئیں یا ان میں اشتباہ ہو، ان کا جواب نہ دے، بلکہ کسی مستند دار الافتاء یا مفتی صاحب سے رجوع کرکے عوام الناس کی راہ نمائی کرے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200535
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن