بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حافظِ قرآن کا گاڑی کرایہ پر چلانے کا حکم


سوال

میں الحمداللہ حافظ قرآن ہوں، لیکن مجھے نوکری نہیں مل رہی، میری اپنی گاڑی ہے، کیا میں وہ چلا کے اپنا گزر بسر کر سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے اسلام نے انسان کو رزق حلال کے حصول میں کسی خاص ذریعہ معاش کو اختیار کرنے کا پابند نہیں بنایا، ہاں اس کا پابند بنایا ہے کہ جو بھی ذریعہ معاش اختیار کیا جائے وہ حلال اور جائز ہو، چاہے وہ ملازمت ہو، یا اجارہ ہو یا کوئی بھی جائز کاروبارہو، حلال ذریعہ معاش اور روزگار کو اسلام نے عبادت قرار دیا ہے۔  جیسے کہ حدیث شریف میں ہے کہ "فرائض (یعنی نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ)کے بعد حلال کمائی حاصل کرنا بھی ایک فریضہ (یعنی عبادت کی حیثیت رکھتا) ہے۔ نیز رزقِ حلال کمانے والا اللہ کے راستے میں ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

"جو شخص اپنے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مشقت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنے بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ور حلال کماتا ہے؛ تاکہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچائے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے"۔

(الترغیب، ج:2، ص:335، ط:دارالکتب العلمیہ)

بصورتِ مسئولہ  اپنی گاڑی کرائے پر چلاکر روزگار کمانے کو شریعت کی اصطلاح میں "اجارہ" کہتےہیں، اور نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں لوگ اجارہ کیا کرتے تھے جس سے نبی کریم ﷺ نے منع نہیں فرمایا؛ لہذا  اپنی گاڑی چلاكر كمائي كرنا جائز ہے۔ نیز ملحوظ رہے کہ  روزگار کمانے کے ساتھ ساتھ   کچھ وقت نکال کر قرآن مجید کا دور کیاکریں، تاکہ یاد کیاہوا قرآن  بھول نہ پائیں، کیوں کہ قرآن مجید یاد کرنے کے جتنے فضائل احادیث میں مذکور ہے، اسی طرح قرآن کو بھولنے اور عمل نہ کرنے پر وعیدیں بھی مذکور ہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وروي «أن رسول الله  صلى الله عليه وسلم  مر على رافع بن خديج، وهو في حائطه فأعجبه فقال: لمن هذا الحائط فقال: لي يا رسول الله استأجرته فقال رسول الله  صلى الله عليه وسلم : لا تستأجره بشيء منه» خص  صلى الله عليه وسلم  النهي باستئجاره ببعض الخارج منه ولو لم تكن الإجارة جائزة أصلا لعم النهي إذ النهي عن المنكر واجب، وكذا بعث رسول الله  صلى الله عليه وسلم  والناس يؤاجرون ويستأجرون فلم ينكر عليهم فكان ذلك تقريرا منه والتقرير أحد وجوه السنة.
وأما الإجماع فإن الأمة أجمعت على ذلك قبل وجود الأصم حيث يعقدون عقد الإجارة من زمن الصحابة - رضي الله عنهم - إلى يومنا هذا من غير نكير، فلا يعبأ بخلافه إذ هو خلاف الإجماع."

(كتاب الاجارة، ج:4، ص:174، ط:مكتبة العلميه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144203200493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں