بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث:’’مومن کی فراست سے ڈرو‘‘کی تحقیق اور فراست کے معنی کی وضاحت


سوال

مومن کی فراست   سےڈرو ،کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔  یہ حدیث ضعیف  ہے یا مستند؟ نیز لفظِ فراست سے کیا مراد ہے؟ یعنی  اس کے معنی کیا ہوں گے؟  

جواب

سوال میں آپ نے جس روایت کے متعلق دریافت کیا ہے، اسے امام طبرانی رحمہ اللہ نے ’’المعجم الكبير‘‘میں روایت کیا ہے، چنانچہ  حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مومن کی فراست سے ڈرو،کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے حسن  ہے، چنانچہ  حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ  ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد‘‘میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:"رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ". (امام طبرانی رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہےاور اس کی سند حسن ہے)۔

۱۔علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ ’’قوت المغتذی علي جامع الترمذی‘‘میں مذکورہ روایت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’(حافظ ابنِ اثیر  جزری رحمہ اللہ کی )کتاب ’’النہایة (في غریب الحدیث والأثر)‘‘میں لکھا ہے: لفظِ’’فراست‘‘ دومعنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے:

۱۔ایک  معنی تو  وہ ہےجس پر حدیث کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے خصوصی انوارات کی برکت سے اپنے اولیاء  کے دلوں  پر لوگوں کے احوال منکشف فرمادیتےہیں۔

۲۔  دوسرا معنی یہ ہےکہ انسان اپنے تجربات کی بنیاد پر لوگوں کے اخلاق و عادات میں غور کرکے ا ن کے احوال سے با خبر ہوجائے۔‘‘

۲۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ ’’مرقاۃ المفاتیح في شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’فراست وہ علم ہے جس میں علامات و احوال کےذریعےسےامورِغیبیہ منکشف ہوتے ہیں۔ الہام اور فراست میں یہی فرق ہےکہ فراست میں علامات واحوال کے ذریعے سے سے امورِ غیبیہ منشکف ہوتے ہیں، جب کہ    الہام   میں امورِ غیبیہ   براہِ راست (اللہ تعالی کی جانب سے) منشکف ہوتے ہیں۔‘‘

المعجم الکبیر  میں ہے:

"حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سَهْلٍ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ-رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: «اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ»".

(المعجم الكبير، باب الصاد، (8/120)، رقم:7497، ط: مكتبة ابن تيميةالقاهرة)

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد میں ہے:

"عَنْ أَبِي أُمَامَةَ-رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ: «اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ؛ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ». رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ".

(مجمع الزوائد، كتاب الزهد، باب ماجاء في الفراسة، (10/268)، رقم:17939، ط:مكتبة القدسي-القاهرة)

قوت المغتذي  علی جامع الترمذي  میں ہے:

"قَالَ في النِّهاية: الفِراسةُ تُقالُ عَلى مَعنيين:

أحدُهما: مَا دلَّ ظاهرُ هذا الحديثِ عليه، وهو مَا يُوقِعُهُ اللهُ تعالى فِي قُلوبِ أوليائِه، فَيعلمُون أحوالَ بعضِ النَّاس بِنوعٍ من الكراماتِ وإِصابةِ الظَّن والحدْسِ.

والثاني: نوعٌ يُتَعلَّم بالدلائلِ والتجاربِ والخَلقِ والأخلاقِ، فيُعْرَفُ به أحوالُ النَّاس. وللنَّاسِ فيه تصانيفُ قديمةٌ وحَدِيثةٌ".

(قوت المغتذي، أبواب تفسير القرآن، (2/775)، رقم:3127، ط:جامعة أم القرى-مكة المكرمة)

مرقاۃ المفاتیح في شرح مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"وَالْفَرَاسَةُ عِلْمٌ يَنْكَشِفُ مِنَ الْغَيْبِ بِسَبَبِ تَفَرُّسِ آثَارِ الصُّوَرِ، «اتَّقَوْا فَرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ» فَالْفَرْقُ بَيْنَ الْإِلْهَامِ وَالْفِرَاسَةِ أَنَّهَا كَشْفُ الْأُمُورِ الْغَيْبِيَّةِ بِوَاسِطَةِ تَفَرُّسِ آثَارِ الصُّوَرِ، وَالْإِلْهَامُ كَشْفُهَا بِلَا وَاسِطَةٍ".

(مرقاة المفاتيح، كتاب العلم، (1/290)، رقم:198، ط:دار الفكر-بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں