بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہدیہ میں اولاد کے درمیان برابری کا حکم


سوال

1۔میرے والد مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان رقم تقسیم کی تھی، آٹھ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، ان میں سے تین بیٹوں کو کم پیسے دیے تھے، اب والد صاحب کا انتقال ہوچکا ہے، مذکورہ تین بیٹے یہ کہہ رہے ہیں کہ والد صاحب  نے ہمیں زندگی میں کم رقم دی تھی، لہٰذا اب وہ بیٹےجس قدر رقم کم تھی،   متروکہ مالِ میراث میں سے اس کا مطالبہ  کر رہے ہیں، شرعاً ان کے مطالبہ کا کیا حکم ہے؟

2۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ کی  تقسیم سے پہلے ایک بیٹے نے پانچ لاکھ روپے بطورِ قرض لیے تھے، جس کے بارے میں چندورثاء سے اس نے اجازت لی تھی اور دیگر سے نہیں لی تھی، باقی قرض لینے کے بارے میں تمام ورثاء کو علم تھا، تو اب شرعاً اس قرض کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ اپنی زندگی میں جائیداد یا مال  تقسیم کرنا  ہبہ   (Gift) کہلاتا ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنا ضروری ہے،  یعنی جتنا بیٹوں کو دے اتنا ہی بیٹیوں کو دینا لازم ہے اور کسی ایک کو دوسرے پر بغیر کسی شرعی وجہ کے ترجیح دینا بھی جائز نہیں ہے، البتہ اگر کسی کو کسی معقول وجہ مثلاً اس کی ضرورت یا خدمت یا دینداری وغیرہ کی وجہ سے کچھ زیادہ دے دے، تو شرعاً اس کی گنجائش ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جب والد نے اپنی اولاد کے درمیان اپنی رقم تقسیم کی، تو والد کے لیے ضروری تھا کہ تمام اولاد کو برابر دیتے، لیکن  جب والد نے تمام اولاد کو برابر رقم نہیں دی، بلکہ بعض کو کم دی، تو جن بیٹوں کو رقم کم دی تھی، تو اس سے ان کی حق تلفی ہوئی، والد مرحوم اس حق تلفی کی وجہ سے گناہ گار ہوئے، والد کے حق میں استغفار کیا جائے، اب اس کے ازالہ اور تلافی کی صورت یہ ہے کہ اب اولاد کو چاہیے کہ والد کی اس  تقسیم کو صحیح اور درست کرنے کے لیے  اپنی رضا و خوشی سے   جن بیٹوں کو کم پیسے ملے تھے ان کو بقیہ ترکہ میں سے اتنی رقم دے دیں، پھر اس کے بعد ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی لحاظ سے تقسیم کرلیں اور اگر وہ اس طرح نہ کریں، تو ان پر اس طرح کرنا لازم نہیں ہے، اس لیے کہ اولاد میں سے ہر ایک اپنی لی ہوئی رقم کا مالک بن چکا ہے۔

2۔صورتِ مسئولہ میں جب ایک بیٹے نے والد کے انتقال کے بعد والدکے ترکہ سے پانچ لاکھ روپے کی رقم قرض لی تھی، تو اس بیٹے پر وہ رقم ترکہ میں واپس لوٹا نا لازم اور ضروری ہے۔

صحيح بخاری میں ہے:

"حدثنا حامد بن عمر، حدثنا أبو عوانة، عن حصين، عن عامر، قال: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، وهو على المنبر يقول: أعطاني أبي عطية، فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية، فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟»، قال: لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»، قال: فرجع فرد عطيته."

(كتاب الهبة، ج:3، ص:157، ط:دار طوق النجاة)

فتاوی عالم گیری میں ہے:

"ولو ‌وهب ‌رجل ‌شيئا ‌لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره."

(كتاب الهبة، ج:4، ص:391، ط:دارالفكر)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"‌‌فصل في القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة."

(کتاب البیوع، ج:5، ص:161، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101999

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں