بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہدیہ ملنے کی امید پر ہدیہ دینے اور اس کو لکھنے کا حکم


سوال

(1) آج کل شادیوں پر ایک نئی روایت پڑچکی ہے کہ شادی پر جو پیسے لوگوں کی طرف سے دیئے جاتے ہیں وہ گھر والے کاپی پر لکھ لیتے ہیں مثلاً زید نے 1000 روپے دیے اور حامد نے 1500 روپے دیے۔ اب جب زید کی شادی پر یہ گھر والے جائیں گے تو جانے سے پہلے کاپی پر دیکھیں گے کہ زید نے 1000 دیے تھے اس کو 1500 دینے ہیں، 1000 اس کے دیے کا اور اوپر 500 ہمارا، لیکن اگر انہوں نے بھی 1000 ہی زید کو دیے تو زید کہتا ہے کہ جناب! یہ 1000 تو آپ نے میرے دیا ہوا دیا ہے آپ نے اوپر مجھے کیا دیا؟ یعنی یہ ایک ہزار تو میں نے آپ کو شادی پر دیا تھا آپ میری شادی  پر ایک ہزار دے رہے ہیں، یہ تو حساب برابرہوا، اب زائد آپ کتنے دیں گے؟ کیوں کہ زید بھی جب شادیوں پر پیسے دے کر آتا ہے تو آکر لکھ لیتا؛ تاکہ جب اس کی شادی ہو گی، تب وہ دیکھے گا کون کتنے دیتا ہے؟ اب آپ بتائیں کہ اس طرح شادیوں پر پیسے دے کر زائد رقم کی وصولی کی امید رکھنا اور اگر کوئی نہ دے تو اس سے وصول کرنا، کیا یہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گا؟

(2) اگر معاشرے میں اس طرح کی روایت پڑ جائے تو کیا کوئی اس نیت سے کاپی پر پیسے لکھ سکتا ہے کہ کل کو جب وہ کسی کی شادی پر جائے تو کم پیسے نہ دے دے اور بھرے مجمعے میں اس کی بے عزتی نہ ہوجائے؟ 

جواب

واضح رہے ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسرے کا دل خوش کرنے کے لیے دیا جاتاہے تاکہ اللہ تعالی کی رضامندی حاصل ہو،  نیز ہدیہ ملنے کی امید پر ہدیہ دینا شرعاً جائز نہیں ہے، اور نہ ہی ہدیہ دینے پر کسی کو مجبور کرنا جائز ہے،  حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی  خوش دلی  کے لینا حلال نہیں ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، باب الغصب والعاریۃ، رقم الحدیث:2946، ج:2، ص:882، ط: المکتب الاسلامی)

1: بصورتِ مسئولہ سوال میں ذکر کردہ صورت (یعنی کہ ولیمے کے موقع پر مذکورہ طریقہ کا لین دین) "نیوتہ" کہلاتا ہے، جو شادی بیاہ کے موقع کی ایک قبیح رسم اور شرعی اعتبار سے ناجائز ہے، قرآن مجید میں اس  رسم قبیح کی  مذمت بیان کی گئی ہے جیسے کہ سورہ روم میں ہے:

" اور جو چیز تم اس غرض سے دوگے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجاوے تو یہ اللہ تعالی کے نزدیک نہیں بڑھتا۔" (سورۃ الروم، رقم الآیۃ:39، ترجمہ:بیان القرآن)

مفسرین نے نیوتہ کے لین دین کو بھی اس آیت کا مصداق ٹھہراتے ہوئے سود ہونے کی بنا  پر ناجائز قرار دیا ہے، جیسے کہ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:

"اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں اس پرنظر رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے وقت میں کچھ دے گا کبھی رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا لیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے جس کو عرف میں ”نوتہ“ کہتے ہیں۔ اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربو سے تعبیر کرکے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگئی"۔

(معارف القرآن، سورہ روم، ج:6، ص:750، ط:مکتبہ معاف القرآن کراچی)

لہذا  جس برادری میں نیوتہ کی رسم ہے،  وہاں اگر شادی یا ولیمہ کے موقع پر کچھ دیا جاتا ہے جس کا باقاعدہ لینے والے اندراج بھی کرتے ہیں جیسے کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے، تو اس کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے اور قرض پراضافہ لینا یا دینا سود کہلاتا ہے، اور سود لینا دینا اسلام میں  ناجائز ہے، البتہ کسی قسم کے بدلے کی نیت کے بغیر محض خوشی کے موقع کی مناسبت سے رقم ہدیہ کردینا جائز  اور اچھا ہے۔

2: باقی اس طرح کے ہدیہ کے لکھنے کا حکم یہ ہے کہ اگر کاپیوں میں لکھنے کا یہ رواج اس  لیے ہو کہ جس نے جتنی رقم ہدیہ کی ہے، بعد میں اس کو اس کی کسی تقریب میں اس رقم سے زائد رقم دی جائے تو یہ صورت جائز نہیں ہے، اس طریقہ سے اجتناب ضروری ہے، اور اگر ویسے ہی بطورِ یادگار محفوظ رکھنے کے لیے لکھا جاتا ہو تو اس میں حرج نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: لا جبر على الصلات".

(كتاب الهبة، فصل فى مسائل متفرقة، ج:5، ص:710، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطًا اهـ.

قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه فرضًا حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه".

(كتاب الهبة، ج:5، ص:696، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144204200762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں