بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حادثہ کی صورت میں انشورنس کمپنی سے پیسے لینا


سوال

سعودیہ میں گاڑیوں کے تصادم کی صورت میں ایک آدمی کا سات ہزار ریال کا نقصان ہوا،وہاں چوں کہ انشورنس کرانا لازم ہےاسی لیے حادثے کے بعد،انشورنس کمپنی نے اس کو نئی گاڑی کے نقصان کے حساب سے بارہ ہزار ریال دیے،حالاں کہ اس نے سال بھر میں دس ہزار ریال جمع کرائے تھے،ایسی صورت میں ان دو ہزار ریال کا کیا،کیا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ انشورنس کرواناایک سودی معاملہ ہےاور ناجائز ہے،کیوں کہ اس میں دیے جانےوالے پیسوں کی حیثیت قرضے کی ہے اور قرض میں دی ہوئی رقم پر زیادہ رقم وصول کرنا،سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے،لیکن اگر واقعۃً حکومت کی پالیسی میں  انشورنس کروانالازم ہواور نہ کروانے پر، نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بادلِ ناخواستہ، اس کام کو برا سمجھتے ہوئے انشورنس کرائی جاسکتی ہے،تاہم جتنے پیسے جمع کرائے ہوں اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے،لیکن اگر وہ اضافی رقم، انشورنس کی کمپنی لازمی ادا کرتی ہو،اور اس کو رد کرنے کا اختیار سائل کو حاصل نہ ہو تو اس صورت میں ،ماہانہ جمع کرائی ہوئی رقم سے زائد اضافی رقم کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں گاڑیوں کے تصادم کی صورت میں انشورنس کمپنی کی طرف سے اد ا کیے گئے بارہ ہزار ریال میں سے دو ہزار ریال سود کے زمرے میں آئے ہیں،کیوں کہ سائل نے صرف دس ہزار ریال جمع کرائے ہیں،تو دس ہزار پر بلا استحقاق اضافی رقم لینا سود کہلائے گا،اور یہ اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے،تاہم اگر ان کے رد کرنے کا اختیار نہ ہو،تو لینے کی گنجائش ہے،البتہ ان کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ بلانیتِ ثواب، مستحقِ زکوۃ غریبوں کو  صدقہ کرنا واجب ہے۔

"رد المحتار"میں ہے:

"‌لا ‌بأس ‌بالرشوة ‌إذا خاف على دينه والنبي  عليه الصلاة والسلام كان يعطي الشعراء ولمن يخاف لسانه...قوله إذا خاف على دينه عبارة المجتبى لمن يخاف، وفيه أيضا دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع ."

(ص:424،ج:6،کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"أمر ‌السلطان إكراه وإن لم يتوعده، وأمر غيره لا إلا أن يعلم المأمور بدلالة الحال أنه لو لم يمتثل أمره يقتله أو يقطع يده أو يضربه ضربا يخاف على نفسه أو تلف عضوه منية المفتي، وبه يفتى."

(ص:132،ج:6،کتاب الإكراه،ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"رجل دفع إلى فقير من المال الحرام شيئا يرجو به الثواب يكفر، ولو علم الفقير بذلك فدعا له وأمن المعطي كفرا جميعا.ونظمه في الوهبانية وفي شرحها: ينبغي أن يكون كذلك لو كان المؤمن أجنبيا غير المعطي والقابض، وكثير من الناس عنه غافلون ومن الجهال فيه واقعون. "

(ص:292،ج:2،کتاب  الزكاة،باب زكاة الغنم،ط:سعيد)

"شرح الزيادات"میں ہے:

"والثاني: أن ‌المال ‌الخبيث إذا استقرّ على ملكه يُتصدّق به، لما عرف."

(ص:1406،ج:4،کتاب الغصب،‌‌باب من غصب المدبّر المعروف،ط:ادارة القرآن والعلوم الإسلامية)

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"وهو في الشرع عبارة عن فضل مال لا يقابله عوض في معاوضة مال بمال."

(ص:117،ج:3،کتاب البیوع،الباب التاسع،ط:دار الفکر،بیروت)

وفيه ايضا:

"قال محمد  رحمه الله تعالى  في كتاب الصرف إن أبا حنيفة  رحمه الله تعالى  كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به."

(ص:220،ج:3،کتاب البیوع،الباب الثامن عشر فی السلم،ط:دار الفکر،بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں