بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث کل تقي ونقي فهو آلي کی اسنادی حیثیت اور مطلب


سوال

کل تقي ونقي فهو آلي 

کیا یہ صحیح حدیث ہے؟  اور اس کا کیا مطلب ہے؟ 

جواب

۱- حدیث کے الفاظ اور اسنادی حیثیت :

اس روایت  کے اصل الفاظ جو کتب ِ احادیث میں ملتے ہیں،  وہ یہ ہیں:  "آل محمد كل تقي"  یعنی "ہر نیک و متقی شخص "محمدصلی اللہ علیہ وسلم "کا "آل "ہے"۔

اور ایک روایت میں "آل "کے متعلق سوال کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "كل تقي من أمة محمد". یعنی "امت ِمحمدیہ (علی صاحبہا الصلاۃ والسلام) کاہرمتقی میرا"آل "ہے"

​ یہ روایت  حضرت انس رضی اللہ تعالی سے  المعجم الأوسط للطبراني،  الفوائد لتمام، مسند الفردوس للدیلمي اور ديگر كتب ِحديث میں وارد ہوئی ہے۔

​(المعجم الأوسط للطبراني: 3/338، رقم الحدیث: 3332، دار الحرمين القاهرة. والفوائد لتمام الرازي: 2/ 216، رقم الحدیث: 1567، مکتبة الرشد1418ھ. ومسند الفردوس للديلمي،1/ 318، رقم الحدیث: 1692، دار الباز1306ھ)

محدثين كی تصریحات کے مطابق اس  روایت کی تمام سندیں ضعیف ہیں، حافظ سخاوی رحمہ اللہ  نے  المقاصد الحسنة میں، اورعلامہ  عجلونی رحمہ اللہ  نے کشف الخفاء میںاس روایت  کے ضعف کی صراحت  کے بعد اس کے  شواہد بھی ذکر فرمائے ہیں  ۔ 

(المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف الهمزة، ص: 40، رقم الحديث: 3، دار الكتاب العربي، ط: الأولى، 1405 هـ، وکشف الخفاء، حرف الهمزة، 1/18، رقم الحدیث:17، مكتبة القدسي القاهرة: 1351ھ)

پہلا شاہد :​

​قرآنِ کریم میں ہے :

"{إن أولياؤه إلا المتقون}." [الأنفال: 34]

" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولیاء تو متقین کے سوا کوئی نہیں"۔

دوسرا شاہد:​

صحیحین میں عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

"​ «إن آل أبي فلان ليسوا لي بأولياء، إنما وليي الله وصالح المؤمنين، ولكن لهم رحم أبلها ببلالها» ."

(صحيح البخاري، باب تبل الرحم ببلالها، 8/ 6، رقم الحدیث:5990، دار طوق النجاة، ط: الأولى، 1422هـ، و صحيح مسلم، باب موالاة المؤمنين ومقاطعة غيرهم والبراءة منهم، 1/ 197، رقم الحدیث:215، دار إحياء التراث العربي، واللفظ للبغوي)

​"فلاں کی اولاد میرے اولیاء نہیں ہیں، میرے ولی تو اللہ تعالی، اور نیک مؤمنین ہیں،لیکن ان کے لیے رحم ( قرابت) ہے جس کی تری سے میں اسے  تر کرتا رہوں گا "۔  یعنی ان سے صلہ رحمی اور ان کے حقوق ادا کرتا رہوں گا۔

تیسرا شاہد:

الأدب المفرد للبخاری،  المستدرك للحاكم اور کئی کتب میں صحیح حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"إن أوليائي منكم المتقون".

(الأدب المفرد للبخاری، باب القوم من أنفسهم، (ص: 40)، دار البشائر الإسلامية – بيروت، ط: الثالثة، 1409، المستدرك للحاكم، تفسير سورة الأنفال، 2/ 358، رقم الحدیث:٣٢٦٦، دار الكتب العلمية – بيروت، ط: الأولى، 1411ھ)

اس كے علاوه بھی  بہت سے شواہد ہیں ، انہی شواہد کی بنا پر  شیخ محمد زرقانی رحمہ اللہ تعالی نے مختصر المقاصد الحسنة   میں اس حدیث کو سند کے اعتبار سے  ”حسن لغیرہ“قرار دیا ہے۔

(مختصر المقاصد الحسنة للزرقاني (ت 1122)، حرف الألف، ص: 47، المكتب الاسلامي، 1401ھ)

۲- حدیث کا مطلب:

​اس حدیث کے مطلب میں علماء کے کئی اقوال ہیں،جن میں سے دو مشہور ہیں: 

(۱)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں اور اہل بیت میں جو نیک و متقی ہو گا ، وہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔

(المنهاج في شعب الإيمان، أبو عبد الله الحَلِيمي (المتوفى: 403 هـ)، باب في تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم وإجلاله وتوقيره، 2/ 141دار الفكرالطبعة: الأولى، 1399 هـ)

(۲)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ِاجابت ،یعنی آپ پر ایمان لانے والی امت میں جو بھی متقی ہے، وہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

(تفسير الراغب الأصفهاني، سورة البقرة: 49، 1/ 184، كلية الآداب، ط: الأولى، 1420 هـ)

​پہلےقول کا صحیح محمل یہ ہےکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کےارشاد کا مطلب یہ لیا جائے کہ  میرے کامل و مکمل "آل"  وہی ہیں جو نیکو کار ہوں گے،  باقی بھی دنیاوی احکامات کے اعتبار سے" آل " میں شامل تو ہیں، یعنی ان کے لیے زکاۃ لینا ناجائز ہے ،اور نسبی شرافت کے اعتبار سے بھی وہ متقین کے ساتھ شریک ہیں،  لیکن "آل "کہلوانے کا حقدار وہی ہے جو متقی بھی ہو،اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو پہلے عمر و بن العاص رضی اللہ تعالی سے نقل کی گئی ہے۔

دوسرے قول کاصحیح محمل یہ کے اس سے مراد روزِقیامت آپ صلی علیہ وسلم کی امت کے تمام متقینآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے "آل " میں شمار کیے جائیں گے، اس کی تائید اس ایک صحيح روایت سے ہوتی ہے، جس میں   "إن أوليائي منكم المتقون"کے ساتھ "يوم القيامة" كا اضافہ ہے۔

(السنة لأبي بكر بن أبي عاصم الشيباني (المتوفى: 287هـ)، 1/ 93، رقم الحدیث 213، المكتب الإسلامي، ط: الأولى، 1400ھ)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں