بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث شریف میں ”أجملوا فی الطلب“ کا مطلب


سوال

ایک حدیث شریف میں ”أجملوا في الطلب “ كی تشريح کیا ہے؟

جواب

ایک حدیث شریف کا لفظ ”أجملوا فی الطلب“ اس سے متعلق حدیث کے شرّاح حضرات نے دو مطالب بیان کئے ہیں:

1. پہلا مطلب یہ ہے کہ روزی کی تلاش میں اعتدال اختیار کرنا، مطلب یہ ہے کہ حصول معاش کی خاطر کئے جانے والے کسب وعمل اور سعی وجدوجہد میں نیکی ومیانہ روی اختیار کرو، طلبِ معاش میں ضرورت سے زیادہ مشقت و محنت کرنا مناسب نہیں  ہے، پھر اس کے بعد اللہ تعالی پر پورا بھروسہ کر کے چھوڑ دو۔ 

2. دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر مال کماؤ تو حسن و خوبی کے ساتھ کماؤ ،یعنی کسی حال میں ایسا کوئی ذریعہ اور ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کرو جو شریعت کے خلاف ہو، مثلاً چوری، ڈکیٹی اور دھوکہ دہی وغیرہ کے ذریعہ مت کماؤ۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أيها الناس ليس من شيء يقربكم إلى الجنة ويباعدكم من النار إلا قد أمرتكم به وليس شيء يقربكم من النار ويباعدكم من الجنة إلا قد نهيتكم عنه وإن الروح الأمين وفي رواية وإن روح القدس نفث في روعي أن نفسا لن تموت حتى تستكمل رزقها ألا فاتقوا الله وأجملوا في الطلب ولا يحملنكم استبطاء الرزق أن تطلبوه بمعاصي الله فإنه لا يدرك ما عند الله إلا بطاعته . رواه في شرح السنة والبيهقي في شعب الإيمان إلا أنه لم يذكر وإن روح القدس ."

(کتاب الرقاق، باب التوکل و الصبر: ج: 15، ص: 220-221، ط: المشکاة الإسلامیة)

ترجمہ :" حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ لوگو! کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تم کو جنت سے قریب کر دے اور دوزخ کی آگ سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس کو اختیار کرنے کا حکم میں نے تمہیں دیا ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تم کو دوزخ کی آگ سے قریب کر دے اور جنت سے دور کر دے علاوہ اس چیز کے جس سے میں نے تمہیں منع کیا ہے، اور روح الامین۔ یا ایک روایت میں ہے کہ روح القدس (یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے (یعنی میرے پاس وحی خفی لائے ہیں) کہ بلاشبہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنا رزق پورا نہیں کر لیتا (یعنی جو شخص بھی اس دنیا میں آتا ہے وہ اپنے اس رزق کو پائے بغیر دنیا سے نہیں جاتا جو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اسے مقدر میں لکھدیا جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ نے اس طرف یوں اشارہ فرمایا ہے آیت (اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم) پس جب یہ معاملہ ہے کہ جو رزق مقدر ہو گیا ہے وہ ہر حال میں ملے گا تو دیکھو، اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے رہو اور حصول معاش کی جدوجہد نیک روی اور اعتدال اختیار کرو تاکہ تمہارا رزق تم تک جائز وحلال وسائل وذرائع اور مشروع طور طریقوں سے پہنچے نیز کہیں ایسا نہ ہو کہ رزق پہنچنے میں تاخیر تمہیں اس بات پر اکسا دے کہ تم گناہوں کے ارتکاب کے ذریعہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگو، حقیقت یہ ہے کہ جو چیز اللہ کے پاس ہے اس کو اس کی طاعت وخوشنودی ہی کے ذریعہ پایا جا سکتا ہے ۔ اس روایت کو بغوی نے شرح السنۃ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے لیکن بیہقی نے وان روح القدس کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔"(از مظاہر حق جدید)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وأجملوا أي من الإجمال أي وأحسنوا في الطلب أي في تحصيل الرزق ولا تبالغوا في طلبه، فإنكم غير مكلفين بطلب الرزق، قال تعالى: وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون ما أريد منهم من رزق وما أريد أن يطعمون إن الله هو الرزاق ذو القوة المتين (الذاريات) وقال عز وجل: وأمر أهلك بالصلاة واصطبر عليها لا نسألك رزقا نحن نرزقك والعاقبة للتقوى طه فالأمر للإباحة أو المعنى اطلبوا من الحلال فالأمر للوجوب ويؤيده قوله: ولا يحملنكم، بكسر الميم أي لا يبعثكم استبطاء الرزق أي تأخيره ومكثه عليكم أن تطلبوه أي على أن تبتغوه بمعاصي الله أي بسبب ارتكابها بطريق من طرق الحرام كسرقة وغصب وخيانة وإظهار وسيادة وعبادة وديانة وأخذ من بيت المال على وجه زيادة نحو ذلك فإنه أي الشأن لا يدرك ما عند الله أي من الرزق الحلال أو من الجنة وحسن المآل، إلا بطاعته أي لا بتحصيل المال من طريق الوبال، قال الطيبي رحمه الله: قوله فأجملوا أي اكتسبوا المال بوجه جميل وهو أن لا تطلبه إلا بالوجه الشرعي، والإستبطاء بمعنى الإبطاء والسين فيه للمبالغة كما أن استعف بمعنى عف في قوله تعالى: ومن كان غنيا فليستعفف النساء وفيه أن الرزق مقدر مقسم لا بد من وصوله إلى العبد لكن العبد إذا سعى وطلب على وجه مشروع وصف بأنه حلال وإذا طلب بوجه غير مشروع فهو حرام فقوله ما عند الله إشارة إلى أن الرزق كله من عند الله الحلال والحرام وقوله إن تطلبوه بمعاصي الله تعالى إشارة إلى أن ما عند الله إذا طلب بمعصية الله ذم وسمى حراما وقوله إلا بطاعته إشارة إلى أن ما عند الله إذا طلب بطاعته مدح وسمى حلالا..."

(کتاب الرقاق، باب التوکل و الصبر: ج: 15، ص: 220-221، ط: المشکاة الإسلامیة)

معارف القرآن میں ہے:

” أجملوا فی الطلب وتوکلوا علیہ۔ یعنی رزق اور اپنی حاجات کے حاصل کرنے کے لئے متوسط درجہ کی طلب اور مادی اسباب کے ذریعہ کوشش کرلو، پھر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرو۔ اپنے دل دماغ کو صرف مادی تدبیروں اور اسباب ہی میں نہ الجھا رکھو۔“

(تفسیر سورۃ الأنفال:آیت 2، ط: مکتبہ معارف القرآن)

مظاہر حق میں ہے:

” لفظ اجملوا اجال سے نکلا ہے اور اس کے معنی ہیں روزی کی تلاش میں اعتدال اختیار کرنا، مطلب یہ ہے کہ تم حصول معاش کی خاطر کئے جانے والے کسب وعمل اور سعی وجدوجہد میں نیکی ومیانہ روی اختیار کرو، طلب معاش میں ضرورت سے زیادہ مشقت و محنت کرنا غیر مناسب بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں تلاش رزق کا مکلف قرار نہیں دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ آیت (وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ ماارید منہم من رزق وما ارید ان یطعمون۔ ان اللہ ہو الرزاق ذوالقوۃ المتین)۔ میں نے جنات اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں، میں ان سے رزق کا بالکل طالب نہیں ہوں اور نہ یہ قطعا چاہتا ہوں کہ وہ مجھ کو بھلائیں، حقیقت یہ ہے کہ رزاق تو صرف اللہ تعالیٰ ہے (اور) وہ بڑی زبردست قوت کا مالک ہے۔ ایک موقع پر پروردگار نے یوں فرمایا ہے۔ آیت (وأمر اھلک بالصلوۃ واصطبر علیہا لا نسئلک رز قا نحن نرزقک، والعاقبۃ للتقویٰ )۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز پڑھنے کا حکم کرو اور اس پر صابر و قائم رہو، ہم تم سے روزی کے خواستگار نہیں ہیں (یعنی ہم تمہیں اپنی اور دوسروں کی روزی پیدا کرنے کا مکلف قرار نہیں دیتے بلکہ ہم تمہیں روزی دیتے ہیں اور حسن انجام انہیں کے لئے ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ لفظ اجملو کے ذریعہ جو حکم دیا گیا ہے اس کا مفہوم اگر وہ مراد لیا جائے جو اوپر مذکور ہوا تو پھر یہ حکم اباحت کے لئے ہوگا اور اگر اس لفظ کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ تم اپنا رزق حلال و جائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرو، تو اس صورت میں حکم وجوب کے لئے ہوگا، اس کی تائید بعد کی عبارت ولا یحملنکم الخ سے بھی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حصول معاش کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے اور رزق پہنچنے میں تاخیر محسوس کرو تو اس کی وجہ سے مضطرب وپراگندہ خاطر نہ ہوجاؤ اور ایسا ہرگز نہ ہو کہ روزی حاصل کرنے کے لئے حرام و مکروہ ذرائع اختیار کرنے لگو، مثل چوری ڈکیتی پر اتر آؤ کسی کا مال ہڑپ کرلو، امانت میں خیانت کے مرتکب ہوجاؤ اور کچھ نہ سہی تو اپنی سیادت و حیثیت اور اپنی عبادت ودیانت کا اظہار کر کے ان چیزوں کو حصول رزق کا واسطہ بنا لو، یا بیت المال جیسے مراکز سے اپنے حق اور اپنی حاجت سے زیادہ حاصل کرنے میں کوئی خرابی نہ سمجھو وغیرہ وغیرہ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ رزق دیر سے کبھی نہیں پہنچتا جو کچھ پہنچے اور جس وقت پہنچے اصل رزق ہی ہے اور اسی طرح مقدر ہوتا ہے، پھر یہ کہ گناہ و معصیت کے ارتکاب سے رزق میں نہ تو وسعت ہوتی ہے اور نہ جلدی پہنچتا ہے اسی قدر ملتا ہے اور اسی وقت پہنچتا ہے کہ مقدر میں جس قدر اور جس وقت پہنچنا لکھا جا چکا ہے، علاوہ ازیں مضطرب اور پراگندہ خاطر ہونے سے سوائے گناہ کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اور جو رزق گناہ کے ساتھ پہنچے وہ حرام ہوتا ہے۔ لہٰذا حصول معاش کی راہ میں اضطراب وبے چینی اور گناہ و معصیت کی راہ اختیار کرنا کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ طیبی نے لکھا ہے کہ اجملو کے ذریعہ جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مال کماؤ تو حسن و خوبی کے ساتھ کماؤ یعنی کسی حال میں ایسا کوئی ذریعہ اور ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کرو جو شریعت کے خلاف ہو لفظ استبطأ اصل میں ابطاء تاخیر ہونے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور حرف سین اظہار مبالغہ کے لئے ہے جیسا کہ قرآن نے ان الفاظ آیت (ومن کان غنیا فلیستعفف) میں استعفف دراصل عف (باز رہنے) کے معنی میں ہے۔“

(حصولِ رزق کے بارے میں ایک خاص ہدایت: ج:4، ص: 747، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407101713

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں