بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیثِ اربعین کی اسنادی حیثیت


سوال

مَن حفِظَ على أمَّتي أربعينَ حديثًا من أمرِ دينِها بعثَهُ اللَّهُ يومَ القيامةِ فقيهًا عالمًا من حفِظَ على أُمَّتي أربعينَ حديثًا.

کیا یہ روایت  موضوع اور من گھڑت ہے؟ 

جواب

اس روایت کو محدثین کے ہاں  ’’حديثِ  اربعین ‘‘  سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ حدیث کئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین  سے مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔مثلاً     ایک روایت میں الفاظ   یہ ہیں  کہ  " اللہ تعالی اسے عالم اورفقیہ اٹھائےگا"۔

اور ایک روایت میں  ہے کہ " اللہ تعالی اسے قیامت کے روز فقہاء  اورعلماء کے زمرے میں اٹھائے گا" ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ " میں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے لیے قیامت  کے دن سفارش اورگواہ ہوں گا" ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ " علماء کے زمرے میں  لکھا جائے گااور حشر شہدا٫ کے زمرے میں ہوگا"۔

 محدثین ِکرام کی عمومی رائے اس  حدیث کے بارے  یہی ہے کہ اس روایت کے تمام  طرق ضعیف ہیں،  اور کثرت ِ طرق کے باوجود بھی روایت کی کمزوری دور نہیں ہو سکتی ،   جیسا کہ امام  نووی رحمہ اللہ نے  فرمایا ہے :

"واتفق الحفاظ على أنه حديث ضعيف وإن كثرت طرقه". 

(الأربعون النووية (ص: 38)، ط/دار المنهاج بيروت)

البتہ امام نووی رحمہ اللہ کے اس  قول میں حافظ ابو  طاہراحمد بن محمد سلفی  رحمہ اللہ  (المتوفى: 576ھ)  شامل نہیں ہوں گے ، کیوں کہ وہ حدیث ِ اربعین کی صحت کے قائل ہیں ،وہ فرماتے ہیں : 

"فإن نفرًا من العلمـاء الأعلام وفقهاء الإسلام لمـا رأوا ورووا قول أطهر مُنْسَلٍ وأظهر مرسل: «من حفظ على أمتي أربعين حديثًا من أمر دينها بعثه الله يوم القيامة فقيهًا عالمـًا» من طرق وثقوا بها، وركنوا إليها، وعرفوا صحتها، وعولوا عليها". 

​(الأربعون البلدانية للسِّلَفي (ص: 28)،ط/مكتبه دار البيروتي دمشق 1412هـ)

نیز علامہ   ابن عساكر  رحمہ اللہ (المتوفى: 571ھ) بھی امام نووی رحمہ اللہ کے قول میں  شامل نہ ہوں گے ، کیوں کہ ان کے نزدیک   تعددِ طرق کی بنا  پر اس حدیث کو تقویت حاصل ہے۔  وہ حدیثِ اربعین ہی کے طرق بیان کرنے کے بعد ان کے ضعف کی   طرف اشارہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ضعیف احادیث ایک  دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے تقویت پاتی ہیں ، خصوصاً وہ احادیث جن میں  فرض ہونے کا کوئی  ثبوت نہیں ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیے:

​"وَلَكِن الأَحَادِيثَ الضَّعِيفَةَ إِذَا ضُمَّ بَعْضُهَا إِلَى بعض أخذت قُوَّة، لَا سِيما مَا لَيْسَ فِيهِ إِثْبَاتُ فَرْضٍ". 

(الأربعون البلدانية لابن عساكر (ص: 25)، ط: مكتبة القرآن - القاهرة)

گویا امام ابن عساکر رحمہ اللہ کے ہاں یہ روایت ان احادیث میں سے ہے کہ جن کو تعددِ طرق کی بنا پر تقویت حاصل ہے۔   اسی بنا پر  ملا علی قاری رحمہ اللہ (المتوفى: 1014ھ)بھی  فرماتے ہیں کہ  اس (حدیث ِ اربعین کی ) روایت پر ضعف کا حکم  ہرہر طریق کے علیحدہ ہونے کے اعتبار سے  انفرادی طور پر ہے ،  البتہ مجموعی طرق کے اعتبار سے یہ روایت  حسن لغیرہ ہے،  لہذا ملا علی قاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق  یہ روایت  حسن   درجہ کی ہے ، موصوف کی عبارت ملاحظہ فرمائیے:

"وأنت خبير بأن قضية ما مهدوه في فن الحديث أن الحكم عليه بالضعف إنما هو بالنظر لكل طريق على حدته، وأما بالنظر إلى مجموع طرقه فحسن لغيره، فيرتقي عن درجة الضعف إلى درجة الحسن".

(مرقاة المفاتيح، كتاب العلم، (1/472)، ط: دار الكتب العلمية- بيروت)

 ملا علی قاری رحمہ اللہ سے ملتی جلتی بات  حضرت مولانا  محمد ادریس میرٹھی صاحب نور اللہ مرقدہ نے بھی تحریر فرمائی ہے کہ کثرت ِطُرق اور مختلف  مقامات پر آنے کی وجہ سے اہل علم نے اسے قبول کیا ہے، اور ہر زمانے میں بڑے بڑے اہل علم نے اس سے اعتنا کیا ہے ،  اس سے اس کی صحت کا گمان ہوگا ہے،      عبارت ملاحظہ فرمائیے: 

"قال الراقم: مع كثرة طرقه واختلاف مخارجه وموارده قد تلقته العلماء بالقبول، واعتنى بشأنه الفحول قديمًـا وحديثًا، فهذا مأنته الظن بصحته، والله اعلم . مدير".

(ماہنامہ  بینات کراچی ذی الحجۃ ۱۳۹۰ھ بمطابق فروری ٫۱۹۷۱، شمارہ نمبر ۶،  مضمون :ترکی اور فارسی زبانوں میں چہل حدیث کے نادر مجموعے، (ص:14، حاشیہ )

ان تمام نصوص کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حدیثِ اربعین باوجود ضعیف ہونے کے  ہر زمانے کے اہل علم میں مقبول رہی ہے ، یہی وجہ کہ جن حضرات نے اسے شدید ترین ضعیف بتایا ہے، وہ بھی اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے احادیث ِ اربعین  کے جامع بن کر فضیلت پانےکے لیے کوشاں نظر آتے ہیں ، ہمارے بزرگوں میں حضرت  شاہ ولی اللہ  رحمہ اللہ  اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اسی روایت کی فضیلت پانے کی خاطر چہل حدیث کو جمع کرنے کا کام سر انجام دیا ہے۔

  ابن حجر الہیتمی  رحمہ اللہ  (المتوفى: 974 ھ) نے صراحت سے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہ ہے  کہ یہ روایت ضعیف ہے ، موضوع نہیں ،  عبارت ملاحظہ فرمائیے: 

​"فالصواب: أنه ضعيفٌ لا موضوعٌ" .

(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الهيتمي (ص/106)،ط/ دار المنهاج، جدة)

مذکورہ تفصیل سے واضح ہوا کہ اس روایت کے متعلق محدثین کے اقوال مختلف ہیں، بعض نے صحیح، بعض نے حسن اور بعض نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن عمومی طور پر محدثین نے اسے قبول کیا ہے، لہذا  اس روایت  کو موضوع نہیں کہا جاسکتا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101728

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں